Maktaba Wahhabi

28 - 46
بلکہ یہ دوسروں كو بھی لے ڈوبيں گے۔ اِنَّكَ اِنْ تَذَرْھُمْ يُضِلُّوْا عِبَادَكَ [1] (خدایا!) یہ پکی بات ہے کہ اگر تو نے ان کو (زنده) چھوڑا تو یہ تيرے بندوں كو گمراه ہی كرينگے ان آیات کریمہ اور پیغمبرِ خدا کی مایوسیوں کے اظہار سے معلوم ہوتا ہے کہ قومِ نوح میں حاملینِ حق کی تعداد اور ان کی جمعیت کم تھی، بد اور منکرینِ حق کی زیادہ تھی اور تقریباً تقریباً ہر زمانہ میں یہی حال اور یہی نسبت رہی ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں ، اپنے گرد و پیش نظر ڈال کر دیکھ لیجئے، سب جگہ یہی سماں طاری نظر آئے گا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ بات کیا ہے، وہ ایسے کیوں نکلے؟ بات یہ ہے کہ ان کے کام ہی کچھ ایسے تھے۔ کردار کا سیرت پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ قومِ نوح کی ذہنی اور عملی کیفیت کیا تھی۔ ان کی زندگی کے تانے بانے اور طول و عرض کی کیا نوعیت تھی اور اپنی افتاد طبع کے لحاظ سے وہ انسانیت سے زیادہ قریب تھی یا بہیمیت سے؟ مندرجہ ذیل سطور میں آپ اس کی اجمالی تصویر اور خاکہ ملاحظہ فرمائیں ۔ بت پرستی: قومِ نوح کی یہ عادت تھی کہ جیتے جی تو اللہ والوں کی ایک نہیں سنتی تھی۔ جب وہ اللہ سے جا ملتے تو انہیں خدا اور مشکل کشا بنا ڈالتی تھی۔ جب تک پیشانی غیر داغدار رہتی۔ غیروں کے آستانوں کے لئے وقف رہتی۔ جب داغدار ہو کر کوڑھی ہو جاتی تو خدا کے حضور پیش کر دی جاتی۔ چنانچہ انہوں نے ایک دوسرے کو بت پرستی پر ثابت قدم رہنے کی وصیت کرتے ہوئے کہا کہ: لَا تَذَرُنَّ اٰلِھَتَکُمْ [2] (بھائیو) اپنے خداؤں کو نہ چھوڑیو۔ چند دیوتا: قرآن کریم نے ان کے ان دیوتاؤں کا بھی ذِکر کیا ہے جن کی یہ لوگ پوجا کیا کرتے تھے:۔
Flag Counter