غازی محمود دھرم پال اسلام سے منحرف ہو کر ۱۹۰۳ء میں آریہ سماجی ہو گیا۔ بعد ازاں قاضی محمد سلیمان منصور پوری کا ایک خط پڑھ کر ۱۹۱۴ء میں دوبارہ حلقۂ اسلام میں داخل ہو گیا۔ ازی صاحب جیسا نقاد اور عقلیت پرست رقمطراز ہے:۔ ’’میں حیران ہتا تھا کہ قاضی صاحب اسلامی معلومات کے بحرِ ذخار ہیں ۔ وہ کتنی صحیح معلومات دیتے تھے کہ میرے جیسے نقاد کو جو اندھی تقلید کا قائل نہ تھا۔ کسی جگہ انگلی رکھنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ ان کی تقریر اس طرح مجھ میں جذب ہوتی جاتی تھی جس طرح کسی پیاسی زمین میں ہلکی ہلکی بارش جذب ہو جاتی ہے اور اس کا ایک قطرہ بھی ضائع نہیں ہوتا۔ [1] قاضی صاحب کی جلالتِ علمی ’’رحمۃ للعالمین‘‘ اور ’’الجمال والکمال‘‘ (تفسیر سورہ یوسف) سے نمایاں ہے۔ ’’رحمۃ للعالمین‘‘ جو تین جلدوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح ہے۔ اس میں قاضی صاحب موصوف نے ایسے اچھوتے انداز سے سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی عکاسی کی ہے کہ داد کے مستحق ہیں ۔ ان کی زندگی میں پہلی دو جلدیں شائع ہوئیں تو دینی مدارس میں ان کو نصاب میں شامل کر لیا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق بائبل کی پیش گوئیوں پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ نبی اکرم کے شجرہ نسب اور تاریخ پیدائش پر بے نظیر تحقیق پیش کی ہے۔ مولانا سید سلیمان ندوی ’’رحمۃ للعالمین جلد سوم‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں : ’’رحمۃ للعالمین کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ مصنف کے ذوق کے مطابق سوانح اور واقعات کے ساتھ غیر مذاہب کے اعتراضات کے جوابات اور دوسرے صحفِ سماوی کے ساتھ موازنہ اور خصوصیت سے یہود و نصاریٰ کے دعاوی کا ابطال بھی اس میں جابجا ہے۔ مصنف مرحوم کو تورات اور انجیل پر کمال عبور حاصل تھا اور عیسائیوں کے مناظرانہ پہلوؤں سے اس کو پوری واقفیت تھی۔ اس بناء پر اس کی یہ کتاب ان معلومات |