بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم اس دنیا میں اللہ رب العزت نے انسان کو اپنا خلیفہ بنانے کیلئے پیدا کیا،اسے تمام مخلوقات پر فضیلت دی،نوری و ناری مخلوق سے سجدہ کروایا۔ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا تو اسے اللہ کی رحمت سے دوری ہو گئی،وہ مردود ہو گیا۔چنانچہ اس کے بدلہ میں اس نے اللہ رب العزت سے مہلت مانگی،تو اللہ نے اسے قیامت کے دن تک مہلت دے دی۔کہنے لگا کہ مجھے تیری عزت و جلال کی قسم میں ان سب (آدم و حوا اور ان کی اولاد) کو گمراہ کروں گا۔چنانچہ اسی دن سے حق و باطل کی قوتوں کے درمیان رسہ کشی شروع ہو گئی۔حق والوں کا ’’قائد‘‘ ہمیشہ اصلاحِ معاشرہ کرتا رہا اور اللہ رب العزت کے کلمہ کو بلند کرنے کیلئے برسرپیکار رہا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ بھی اس ’’قائد‘‘ اور اس کے ساتھیوں کی ہمیشہ مدد کرتا رہا۔دوسری طرف باطل قوتوں کا ’’قائد‘‘ ہمیشہ اللہ کی راہ میں روڑے اٹکاتا رہا،معاشرے کو بگاڑتا رہا،لوگوں کو صراطِ مستقیم سے ہٹاتا رہا اور اپنی پوری آن بان اور شان و شوکت سے حق سے برسر پیکار ہوتا رہا اور شیطان اپنی تمام قوتوں اور طاقتوں سے اس ’’قائد‘‘ کی حمایت اور مدد کرتا رہا۔ یہ معاملہ یونہی چلتا رہا۔اللہ تعالیٰ حق والوں کی رہنمائی کے لئے اپنے نبی،رسول اور پیغمبر بھیجتا رہا۔سب سے آخر میں نبی کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور نبوت کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند کر دیا اور ان کی ’’قائدانہ صفات‘‘ کو قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے ہدایت کا روشن مینارہ بنا دیا۔سراجِ منیر ا کی اُمت (اہل حق) کے قائد میں کیا کیا صفات ہونی چاہئیں ہم ان کا جائزہ لیتے ہیں۔ |