میں جو تصحیفات واقع ہوئی ہیں، ان کا اشارہ بھی ہم نے استفادے کے طور پر کر دیا ہے اور اس قسم کی اور بھی تصحیفات ’’المجتبیٰ‘‘ میں پائی جاتی ہیں، مگر مقصد یہاں استیعاب نہیں۔ تاہم اسی حوالے سے یہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ ’’المجتبیٰ‘‘ کے ’’کتاب النکاح‘‘ کے ’’الحث علی النکاح‘‘ کے تحت حدیث (رقم: ۳۲۰۸) ہے، جو ’’یونس عن أبي معشر عن إبراہیم‘‘ کی سند سے مروی ہے۔ اس کے الفاظ ہیں:
’’فقال عثمان: خرج رسول اللّٰہ علی یعني فتیۃ۔ قال أبو عبد الرحمن: فلم أفہم: فتیۃ، کما أردت۔۔۔ الخ‘‘
یہ روایت اسی سند سے ’’السنن الکبریٰ‘‘ میں دو مقامات (رقم: ۲۵۶۳، ۵۲۹۶) پر ہے، مگر دونوں مقامات پر وہ الفاظ نہیں، جو ’’المجتبیٰ‘‘ میں امام نسائی نے فرمائے ہیں۔ البتہ حدیث (رقم: ۲۵۶۳) کے تحت ’’أبو معشر‘‘ راوی کے بارے میں وضاحت ہے کہ اس کا نام زیاد بن کلیب ہے، جو ابراہیم کا شاگرد ہے اور ثقہ ہے۔ دوسرا ابو معشر المدنی نجیح ہے اور وہ ضعیف ہے اور مختلط بھی ہے، نیز وہ مناکیر روایت کرتا ہے، پھر اس کی دو منکر روایات ذکر کی ہیں۔[1]
غور فرمائیے! ’’المجتبیٰ‘‘ میں جو الفاظ امام نسائی کے ہیں، وہ ’’السنن الکبریٰ‘‘ میں نہیں اور جو کچھ ’’السنن الکبریٰ‘‘ میں ہے، وہ ’’المجتبیٰ‘‘ میں نہیں۔ علامہ المزی نے ’’تحفۃ الأشراف‘‘ (۷/ ۲۶۵، رقم: ۹۸۳۲) میں یہ روایت ذکر کی ہے، مگر امام نسائی کا مطلقاً کوئی کلام ذکر نہیں کیا۔
امام صاحب نے ’’المجتبیٰ‘‘ میں فرمایا ہے: ’’فتیۃ‘‘ کا لفظ حسبِ منشا میں سمجھ نہیں سکا۔ شارح النسائی مولانا عطاء اللہ حنیف محدث بھوجیانی رحمہ اللہ نے اس کی
|