Maktaba Wahhabi

90 - 391
2. اس کے برعکس دوسری رائے علامہ ذہبی رحمہ اللہ کی ہے، جو فرماتے ہیں کہ ’’المجتبیٰ‘‘ امام نسائی کے تلمیذ امام ابن السنی کا اختصار ہے اور وہ اس کے راوی بھی ہیں، اور امام ابن اثیر وغیرہ نے جو فرمایا ہے کہ ایک حاکمِ وقت کی تمنا پر انھوں نے ’’المجتبیٰ‘‘ کے نام سے صحیح احادیث کا انتخاب کیا ہے، اس کے متعلق حافظ ذہبی فرماتے ہیں: ’’ہذا لم یصح، بل المجتبیٰ اختیار ابن السني‘‘[1] کہ یہ صحیح نہیں، بلکہ ’’المجتبیٰ‘‘ ابن السنی کا انتخاب ہے۔ یہی رائے ابن ناصر الدین الدمشقی اور تاج الدین السبکی کی ہے۔ لیکن حافظ ابن حجر نے امام نسائی کے شاگرد محمد بن معاویۃ ابن الاحمر راوی السنن الکبریٰ سے نقل کیا ہے کہ امام نسائی نے فرمایا: ’’کتاب السنن کلہ صحیح، و بعضہ معلول إلّا أنہ لم یبین علتہ، والمنتخب منہ المسمی بالمجتبیٰ صحیح کلہ‘‘[2] ’’کتاب السنن تمام تر صحیح ہے اور بعض اس کی روایات معلول ہیں، مگر اس کی علت بیان نہیں کی، البتہ اس کا انتخاب، جس کا نام ’’المجتبیٰ‘‘ ہے، سب صحیح ہے۔‘‘ کیا ’’المجتبیٰ‘‘ میں تمام احادیث صحیح ہیں اور اُن کی پوزیشن کیسی ہے؟ اس سے قطع نظر ابن الاحمر کے اس بیان سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ’’المجتبیٰ‘‘ امام نسائی کا انتخاب ہے۔ صحت کے اس دعوے کو اکثر و بیشتر روایات پر محمول کیا جائے اور ان روایات کو بھی اس سے خارج سمجھا جائے جن پر خود امام نسائی نے کلام کیا یا انہیں معلول قرار دیا ہے، تب یہ بات درست ہو سکتی ہے۔ حافظ ابن حجر نے فرمایا ہے:
Flag Counter