’’فإن فیہ رجالاً مجہولین إما عینًا أو حالا، و فیہم المجروح، وفیہ أحادیث ضعیفۃ معللۃ و منکرۃ‘‘[1]
’’اس میں مجہول العین، مجہول الحال، مجروح راوی ہیں اور اس میں ضعیف، معلول اور منکر احادیث بھی ہیں۔‘‘
بلکہ حافظ ابو علی الغسانی رحمہ اللہ نے اس کے علاوہ یہ جو فرمایا ہے: ’’کتاب الإیمان والصلح لیسا من المصنف، إنما ہما من المجتبیٰ‘‘ (فہرست ابن خیر) کہ کتاب الایمان اور کتاب الصلح یہ المصنف، یعنی السنن الکبریٰ میں نہیں، یہ دونوں المجتبیٰ کا حصہ ہیں، یہ بھی عجیب ہے۔ بلاشبہ ’’کتاب الإیمان‘‘ کا ذکر ’’السنن الکبریٰ‘‘ میں نہیں صرف ’’السنن الصغریٰ‘‘ یعنی ’’المجتبیٰ‘‘ میں ہے، مگر ’’کتاب الصلح‘‘ کا کہیں ذکر ’’المجتبیٰ‘‘ میں نہیں ملتا اور نہ علامہ المزی ہی نے ’’تحفۃ الأشراف‘‘ میں کہیں اس کا ذکر کیا ہے۔ واللّٰه أعلم
تاہم ’’المجتبیٰ‘‘ کی ترتیب اور اس کا اسلوب اس بات کا مشعر ہے کہ یہ اختصار امام نسائی کا ہے۔ ’’السنن الکبریٰ‘‘ کا آغاز ’’کتاب الطہارۃ، باب وضوء النائم إذا قام إلی الصلاۃ‘‘ سے ہوتا ہے، جبکہ ’’المجتبیٰ‘‘ میں کتاب اور باب کا عنوان نہیں، بلکہ اس کا عنوان: ’’تأویل قولہ عزوجل: إذا قمتم إلی الصلاۃ فاغسلوا وجوہکم و أیدیکم إلی المرافق‘‘ ہے۔ بلکہ ’’المجتبیٰ‘‘ کی سند و متن میں بعض الفاظ ایسے بھی ہیں جو ’’السنن الکبریٰ‘‘ میں نہیں۔ چنانچہ ’’المجتبیٰ‘‘ (رقم: ۳۶۳) میں ’’عروۃ عن عائشۃ‘‘ کی حدیث: ’’أن فاطمۃ بنت أبي حبیش کانت تستحاض۔۔۔ الخ‘‘ کے بعد امام نسائی کا کلام ہے:
|