Maktaba Wahhabi

86 - 391
میں ’’المجتبیٰ‘‘ کے ایک خطی نسخے کے حوالے سے لکھی ہے، جس میں ۵۳۰، ۵۶۱ھ کے سماعات کا ذکر ہے اور وہ حافظ ابو اسحاق ابراہیم بن سعید تجیبی (المتوفی ۴۸۲ھ) سے منقول ہے۔ بلاشبہ ’’المجتبیٰ‘‘ کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ یہ امام نسائی کا اختصار ہے۔ کتبِ مشیخات میں بھی عموماً اس کا انتساب امام نسائی کی طرف ہے۔ یہی رائے امام ابو یعلی الخلیلی کی اور جامع الاصول میں امام ابن اثیر کی ہے۔ حافظ ابن کثیر، علامہ العراقی، حافظ ابن حجر رحمہم اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔ مگرجو بات حافظ ابو علی الغسانی نے فرمائی ہے کہ المجتبیٰ میں امام نسائی نے ’’ان روایات کو نظر انداز کر دیا ہے جن کی اسانید معلول ہیں۔‘‘ بالکل درست نہیں، کیونکہ اس میں معلول روایات بھی موجود ہیں اور خود امام نسائی نے ان کی اسانید پر کلام کیا ہے۔ ان کے علاوہ اس میں مجہول، ضعیف حتیٰ کہ متروک راویوں سے بھی روایات مروی ہیں۔ چنانچہ عبدالرحمن بن یزید الدمشقی سے انھوں نے روایت لی ہے اور اسے خود انھوں نے ’’متروک الحدیث‘‘ بھی کہا ہے۔ حافظ ذہبی فرماتے ہیں: ’’ہذا عجیب، إذ یروي لہ، ویقول: متروک‘‘[1] حارث بن عمیر کے بارے میں امام ذہبی فرماتے ہیں: ’’أنا أتعجب کیف خرج لہ النسائي!‘‘ [2] اسی طرح کتاب میں سلیمان بن ارقم، عبدالکریم بن ابی المخارق، اسماعیل بن ابی ادریس، اشعث بن سوار، نضر بن کثیر بصری، بریدۃ بن سفیان، ربیعہ بن سیف، مصعب بن شیبہ وغیرہ جیسے ضعیف، متروک اور مجہول راویوں سے بھی روایت پائی جاتی ہے۔ اسی بنا پر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:
Flag Counter