یہ لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ میں نے ’’کتاب التاریخ‘‘ کیسے مرتب کی ہے، یہ بحث یہاں بے محل ہے، البتہ امام ابن مندہ کے اس قول سے امام مسلم کی عظمت کا پتا چلتا ہے۔
یہ اور اسی نوعیت کے دوسرے اقوال جنھیں خطیب بغدادی، علامہ نووی، حافظ ذہبی اور حافظ ابن کثیر رحمہم اللہ وغیرہ نے نقل کیا، ان سے امام مسلم کی شخصیت، علمِ حدیث اور علل الحدیث میں ان کی معرفت و بصیرت کا پتا چلتا ہے۔
علاوہ ازیں امام مسلم نے جو تقریباً دو درجن کتب یادگار چھوڑی ہیں، وہی ان کے علم و فضل کا منہ بولتا ثبوت ہیں، ان کتابوں میں ان کی شہرہ آفاق کتاب ’’المسند الصحیح‘‘ ہے، جسے عموماً ’’الجامع الصحیح‘‘ کہا جاتا ہے۔
مگر اس کا صحیح نام ’’المسند الصحیح المختصر من السنن بنقل العدل عن العدل عن رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم ‘‘ ہے۔ جیسا کہ قاضی عیاض نے ’’مشارق الأنوار علی صحاح الآثار‘‘ اور ’’الغنیۃ مع الکمال المعلم‘‘ (۱/۱۷) میں اور حافظ ابو بکر محمد بن خیر بن عمر بن خلیفہ الاموی الاشبیلی نے اپنی فہرست (ص: ۸۵، رقم ۱۵۳) میں ذکر کیا ہے، شیخ عبدالفتاح ابو غدہ مرحوم نے ایک رسالہ ’’تحقیق اسمي الصحیحین واسم جامع الترمذي‘‘ کے نام سے لکھا ہے، جس میں انھوں نے صحیح مسلم کے اسی نام کو درست اور راجح قرار دیا ہے، خطیب بغدادی کے کلام سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ ان کے الفاظ ہیں:
’’وأحقھا بالتقدیم کتاب ’’الجامع والمسند‘‘ الصحیحان لمحمد بن إسماعیل البخاري ومسلم بن الحجاج النیسابوري‘‘[1]
|