اخلاص اور محبت سے پیش آتے اور توحید و سنت کے فروغ کے لیے درد مند رہتے۔ مرحوم میں بہت سی خوبیاں تھیں۔ مسلک احناف کے علما کے ساتھ ان کا احترام و محبت کا اٹوٹ رشتہ تھا۔ اختلافی مسائل سے ہمیشہ گریز فرماتے۔ اے کاش! مسلک اہلِ حدیث کے نوجوان خطیب اب بھی انہی کے مشن کو زندہ رکھیں، جن مسائل میں ائمہ کرام رحمہم اللہ سے اختلاف ہے، اس میں الجھنے کی بجائے توحید و سنت کی خدمت اپنا محبوب مشغلہ بنائیں۔
ضیاء القاسمی
خطیب غلام محمد آباد فیصل آباد
مولانا امداد الحسن نعمانی (سیکرٹری جنرل سواد اعظم اہلِ سنت پنجاب):
نحمدہ ونصلي علی رسولہ الکریم
اما بعد! حضرت مولانا محمد رفیق صاحب مدنپوری رحمہ اللہ کی اچانک وفات سن کر مجھے سخت اور انتہائی صدمہ ہوا۔ مولانا مدنپوری ایک بے باک اور نڈر عالمِ دین تھے۔ انھوں نے ہر تحریک میں، خواہ ۵۳ کی تحریک ختمِ نبوت ہو یا ۱۹۷۴ء کی تحریکِ ختمِ نبوت ہو یا تحریکِ نظام مصطفی ہو، جس بے باکی سے ان تحریکوں میں کام کیا۔ ہمیشہ ان کی بہادری اور جرات و دلیری کو یاد رکھا جائے گا۔ بندہ کو ۱۹۷۴ء میں جو ختمِ نبوت کے نام سے تحریک چلی اور ۱۹۷۷ء میں جو نظام مصطفی کے نام سے چلی قریب ہو کر مولانا مدنپوری رحمہ اللہ کو دیکھنے کا موقعہ ملا۔ وہ ہمیشہ چھوٹوں کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ باوجود کہ ان کا تعلق مسلک اہلِ حدیث سے تھا۔ مگر ہمیشہ اعتدال پسندی سے کام لیتے۔ یہی وجہ ہے ان کی اچانک اور بے وقت موت کو ہر طبقہ نے محسوس کیا۔ کیوں کہ باوجود مسلکی اختلاف کے ہر دوست سے محبت کرتے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت مولانا مدنپوری رحمہ اللہ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبرِ جمیل
|