جلسہ ہو رہا ہے۔ جس میں ملک بھر کے نامور خطباء اور واعظین خطاب فرمائیں گے۔ میں اپنے ساتھیوں اساتذہ اور عزیزوں کے ساتھ شریکِ جلسہ ہوا۔ حافظ عبدالقادر صاحب نے تو طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے مختصر خطاب فرمایا۔ اور اسی جلسہ کے روحِ رواں حضرت مولانا محمد رفیق صاحب مرحوم و مغفور بنے، جن سے بعد میں شناسائی ہوئی۔ ان کی باتیں ہر سامع کے دل میں گھر کر رہی تھیں اور میں خود پورے انہماک کے ساتھ ان کا وعظ سن رہا تھا۔ میرے استفسار پر ایک دوست نے آپ کا مختصر سا تعارف کرایا۔ اس کے بعد جب بھی آس پاس جلسہ ہوا اور اس میں مولانا صاحب کا نام سنا تو فوراً وہاں گیا اور مرحوم کو تقریر کے بعد ملنے اور چند باتیں کرنے کی کوشش کرتا رہا، حتی کہ ان کو دبانے لگتا اور مختلف باتیں بھی سنتا رہتا اور سوالات کرتا رہتا جن کا مولانا صاحب مختصر مگر جامع اور موثر جواب ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ جنوری ۱۹۸۱ میں جب میری بطور لیکچرار زرعی یونیورسٹی تقرری ہوئی تو فیصل آباد کے بے شمار علما میں سے جنھیں ملنے کا شوق ہوا۔ ان میں مولانا صاحب سرفہرست تھے، میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے بہت بہت مبارکباد دی اور میں نے ان کے جواب میں جزاک اللہ کہا۔
مولانا صاحب فنِ تقریر میں بہت ماہر تھے۔ ایک ہی موضوع پربات کرتے اور موضوع خواہ کتنا ہی لمبا اور پیچیدہ کیوں نہ ہو مکمل کرنے اور دل میں اتارنے کی حد تک واضح کرتے تھے، انداز سادہ تھا۔ قرآن پاک کی آیات اور اشعار ترنم سے بھی پڑھتے تھے، مگر اسی انداز کو ’’عوامی انداز‘‘ کہہ کر اس کی حوصلہ شکنی بھی کرتے تھے طبیعت نہایت ہی سادہ تھی اور تکلف سے بالکل آزاد تھے۔ اتباعِ سنت میں ایک مثال تھے اور مسلک اہلِ حدیث کی ترویج و اشاعت میں انھیں بے حد لگاؤ تھا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو
|