اعلیٰ علیین میں داخل فرمائے اور ان کی غلطیوں کو معاف کرے اور پسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
راقم آثم محمد داود، فیصل آباد
۸۱۔۳۔۶
مولانا محمد اشرف صاحب سلیم:
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، ﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ﴾ [آل عمران: ۱۸۵]
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
مخدوم العلماء قدوۃ الفضلاء فخرِ جماعت، مناظرِ اسلام مولانا محمد رفیق صاحب مدنپوری ۔نوّر اللہ مرقدہ۔ کی وفات حسرت آیات سن کر راقم الحروف دم بخود ہو گیا اور دل تسلیم نہیں کرتا تھا کہ واقعی مولانا موصوف انتقال فرما گئے ہیں۔ جب مدنپورہ میں مولانا کی قیام گاہ پر پہنچا تو لوگوں کا جمِ غفیر جمع تھا اور ہر انسان کی آنکھیں اشکبار تھیں ۔إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔ مولانا واقعی عالم باعمل تھے اور ان کا بیان نہایت مدلل مفصل اور مشرح ہوتا تھا۔ نیز اہلِ علم کے ساتھ ساتھ کم علم لوگ بھی یکساں ان کی تقریر دل پذیر سے مستفید ہوتے تھے۔ ساری عمر کتاب و سنت کے داعی اور علمبردار رہے اور تادمِ زیست تبلیغ کا فریضہ خلوصِ دل اور بے باکی سے ادا کرتے رہے، حتی کہ جس دن آپ کی وفات ہوئی اس دن بھی توحید و سنت کی تبلیغ کے لیے گھر سے نکل پڑے تھے۔ رب العالمین نے ان کی ساری زندگی کی تبلیغ کو قبول فرما کر اپنے پاس بلا لیا اور کہا: اے میرے توحید کے مبلغ اب آپ کی زندگی کے مشن کو میں نے منظور کر لیا اور تیرا یہ سفر اب سفرِ آخرت ہے۔ دعا ہے کہ مولانا موصوف کو اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ
|