گھر روانہ ہو گئے۔‘‘[1]
مولانا مدن پوری کے انتقالِ پرملال پر اہلِ حدیث علما کے علاوہ دیوبندی، بریلوی مسلک کے علما، حتی کہ ان کے محلہ مدن پورہ کی بریلوی مسجد کے خطیب اور شیعہ مسلک کے ترجمان ’’شہید‘‘ کے چیف ایڈیٹر جناب سید محبوب علی شمسی نے جن الفاظ سے ان کی خدمات کا اعتراف کیا اور جن حضرات نے نظم میں عقیدت کے پھول چنے، آپ بھی ان کی خوش بو سے مُشامِ جاں کو معطر کیجیے۔
شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ محدث فیصل آبادی:
موت العالِم موت العالَم
میں اپنے عزیز مولانا محمد رفیق رحمہ اللہ کی تعزیت پر کیا لکھوں، میرے تو وہ بازو تھے۔ میرا بازو ٹوٹ گیا ۔إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔ جس کا پر ہونا اس زمانۂ پر آشوب میں بڑا ہی مشکل ہے۔ مرحوم و مغفور کے والدِ مرحوم مولانا سراج الدین میرے ہم سفر تھے۔ ہم نے مل کر علاقہ راوی میں دینی تبلیغ کا پروگرام بنا کر مل کر کام کیا۔
مولانا مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ رفیق، مولانا محمد عبداللہ میرے بھائی ہیں اور تیرے چچا ہیں۔ مولانا محمد رفیق مرحوم مجھے چچا ہی کہا کرتے ہیں۔ افسوس بھتیجا چچا کو سوگوار چھوڑ کر ہمیں داغِ مفارقت دے گیا۔
للّٰه ما أخذ ولہ ما أعطی وإنا بفراقک یا رفیق لمحزونون، اللھم نوّر لہ في قبرہٖ وأوردہ حوض نبیک محمد صلي اللّٰه عليه وسلم وأدخلہ جنۃ الفردوس۔ آمین
یکم جمادی الاول ۱۴۰۱ھ
|