(( أَکْثِرُوْا ذِکْرَھَا ذِمِ اللَّذَّاتِ الْمَوْتِ )) (الترغیب)
’’لذتوں کو کچلنے والی موت کا ذکر کثرت سے کیا کرو۔‘‘
موت کی یاد تمام گناہوں سے حفاظت کا موثر ترین نسخہ اور موت سے غفلت ہر قسم کے شر اور فساد کا سبب ہے، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَتَیْتُ النَّبِيَّ صلي اللّٰه عليه وسلم عَاشِرُ عَشْرَۃٍ فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ یَا نَبِيَّ اللّٰہِ! مَنْ أَکْیَسُ النَّاسِ وَأَحْزَمُ النَّاسِ؟ قَالَ: أَکْثَرُھُمْ ذِکْراً لِلْمَوْتِ وَأَکْثَرَھُمْ اسْتِعْدَادًا لِلْمَوْتِ أُولٰئِکَ الْأَکْیَاسُ ذَھَبُوْا بِشَرَفِ الدُّنْیَا وَکَرَامَۃِ الْآخِرَۃِ )) (ابن ماجہ)
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دس آدمی آئے جن میں ایک میں بھی تھا۔ انصار میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح گویا ہوا: اے اللہ کے پیغمبر! فرمائیے لوگوں میں کون زیادہ عقل مند اور ہوشیار ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہے اور موت کے لیے زیادہ سے زیادہ تیاری میں مصروف ہے۔ جو لوگ ایسے ہیں وہی دانش مند اور ہوشیار ہیں۔ انھوں نے دنیا کی عزت حاصل کی اور آخرت کا اعزاز و اکرام بھی پایا۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عقل مندی کی دلیل موت کی یاد بیان فرما کر یہ بھی وضاحت فرمائی کہ موت کو یاد رکھنا دنیا میں عزت اور آخرت میں انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں اعزاز و اکرام ہے۔ خوش قسمت اور دور اندیش وہی لوگ ہیں جو ہمیشہ موت
|