عندلیبِ ریاضِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نغمہ سرائی سے یکایک محروم ہو گئے۔ مرگِ ناگہاں کے بارے میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے غضب کی علامت ہے۔ اس سلسلے میں رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ملاحظہ فرمائیں:
(( عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم : مَوْتُ الْفَجْأَۃِ رَاحَۃٌ لِلْمُؤْمِنِ وَأَخْذَۃُ أَسَفٍ لِلْفَاجِرِ )) (کنز العمال: ۱۵/۶۷۸)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرگِ ناگہانی مومن کے لیے راحت اور اللہ کے نافرمان کے لیے اللہ تعالیٰ کی افسوس ناک پکڑ ہے۔‘‘
اسی مضمون کی ایک دوسری حدیث بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں:
(( مَوْتُ الْفَجْأَۃِ تَخْفِیْفٌ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَسْخَطَۃٌ عَلَی الْکَافِرِیْنَ )) (کنز العمال: ۱۵/۶۹۰)
’’اچانک موت مومنوں کے لیے باعثِ راحت اور کافروں کے لیے باعثِ تکلیف ہے۔‘‘
ان کے جنازے کے ساتھ عوام کا جمِ غفیر ان سے والہانہ محبت و عقیدت کی منہ بولتی تصویر تھا، ہزار ہا مقامی سوگواروں کے علاوہ لاہور، گوجرانوالہ، راولپنڈی وغیرہ دور دراز سے آئے ہوئے بڑی تعداد میں علما و صلحا شریکِ جنازہ تھے۔ تاریخِ فیصل آباد میں اس سے پیشتر کسی کے جنازے میں اتنا عظیم اجتماع دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہ لوگ فرطِ محبت و عقیدت سے خود بخود دور دراز علاقوں سے کشاں کشاں حصولِ ثوابِ دارین کے لیے آئے تھے، نمازِ جنازہ سے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ملاحظہ فرمائیں:
|