مضمون شائع ہوا، غم میں ڈوبا ہوا یہ مضمون آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
آہ! مولانا محمد رفیق مدن پوری
پھولوں کا سرِ شام، ستاروں کا دمِ صبح
انجام جو دیکھا تو میری آنکھ بھر آئی
پہلو سے اٹھانا بھی گوارا نہ جنھیں تھا
وہ دے گئے ایک ایک ہمیں داغِ جدائی
میں ۳ مارچ ۱۹۸۱ء بروز منگل اپنے مکتبہ (رحمانیہ دار الکتب) پر حاضر نہ ہو سکا۔ دوسرے دن ۴ مارچ بروز بدھ نمازِ فجر سے فارغ ہوا تو کسی نے ذکر کیا کہ مولانا محمد رفیق مدنپوری صاحب کل وفات پا گئے اور آج دس بجے دن (بلکہ بعد نمازِ عصر) ان کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی۔ یہ اچانک دلدوز خبر سن کر دل بیٹھ گیا، پاؤں شل ہو گئے، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ اس خبر پر یقین نہیں آیا، اس لیے کہ اچانک موت کے واقعات ایک معمول بن گئے ہیں اور زندگی ان کی عادی ہو گئی ہے۔ میں نے دو روز قبل ہی ایک نظم کہی تھی جس کا یہ شعر زبان پر آگیا:
دفعتاً گر آ گیا عاجزؔ پیامِ الوداع
دفعتاً یہ کیا ہوا تو سوچتا رہ جائے گا
اسی غم نے مجھے نڈھال کر دیا کہ مولانا مدنپوری جیسے شخص نے اپنی زندگی کا سفر دفعتاً طے کیا اور اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا، ایک ایسا عالم و فاضل بزرگ جو ملک و ملت کی خدمت میں رات دن منہمک رہتا تھا اور اس کی زندگی مردہ دلوں کو زندگی بخشتی تھی، ملک کے کونے کونے میں بے شمار لوگ ان کے پند و نصائح اور مواعظِ دل پذیر سے مستفید ہو رہے تھے وہ سب
|