Maktaba Wahhabi

358 - 391
سفرِ آخرت پر روانہ ہونے سے پہلے وہ دعوت و تبلیغ کے لیے گھر سے روانہ ہوئے، انھیں جڑانوالہ میں ایک تبلیغی جلسہ سے خطاب کرنا تھا اور ان کے ساتھ شاعرِ اسلام جناب محمد سعید الفت صاحب نے بھی جانا تھا۔ چنانچہ انھیں ساتھ لینے کے لیے مندر گلی کی مسجد میں انھوں نے عصر کی نماز پڑھی، نماز سے فارغ ہوئے، نیچے اپنے ایک دوست جناب شیخ محمد یعقوب صاحب کی دکان پر تشریف لے گئے۔ وہاں تھوڑی دیر ہی بیٹھے تھے کہ پیغامِ اجل آ پہنچا، دورۂ دل کا شدید حملہ ہوا، ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔ إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔ ان کی وفات کی خبر آناً فاناً پورے شہر میں پھیل گئی تو سارا شہر فرطِ غم میں ڈوب گیا۔ میت کو ان کے گھر لایا گیا، تو سارا شہر امنڈ آیا۔ اگلے روز عصر کی نماز کے بعد زرعی یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں ادارۃ العلوم الاثریہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبداللہ صاحب نے بڑے سوز اور غم ناکی میں نمازِ جنازہ پڑھائی۔ جنازہ میں ہر مکتبِ فکر کے علمائے کرام نے شرکت کی اور ان کی دینی خدمات کا اعتراف کیا۔ ادھر آفتاب غروب ہوا چاہتا تھا، ادھر دعوت و تبلیغ کے آفتاب کو اس کی زندگی کے ۵۵ سال گزر جانے کے بعد فیصل آباد کے بڑے قبرستان میں دفن کیا جا رہا تھا۔ ان کی وفات حسرتِ آیات پر مسلکِ اہلِ حدیث کے قدیم ترجمان ’’الاعتصام‘‘ میں ان کی خبرِ وفات ان الفاظ سے شائع ہوئی: مولانا محمد رفیق مدن پوری کا سانحۂ ارتحال ’’جماعتی حلقوں میں یہ الم ناک خبر پہنچ چکی ہے کہ مولانا محمد رفیق مدن پوری ۳ مارچ ۱۹۸۱ء کو اپنی رہائش گاہ مدن پورہ (فیصل آباد) میں انتقال کر گئے ۔إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔ مولانا مرحوم ایک کامیاب مقرر،
Flag Counter