اسی طرح تحریکِ ختمِ نبوت ہو یا تحریکِ نفاذِ اسلام ہو، ان میں مسلکِ اہلِ حدیث کی نمائندگی اکثر و بیشتر مولانا مدن پوری کرتے تھے۔ ۱۹۷۴ء کی تحریکِ ختمِ نبوت کے فیصل آباد میں مجلسِ عمل کے صدر میاں طفیل احمد ضیاء (جماعت اسلامی) اور سیکرٹری جنرل حضرت مولانا محمد یوسف انور حفظہ اللہ تھے، جبکہ مولانا محمد رفیق مدن پوری اور مولانا محمد اشرف ہمدانی نائب صدور تھے۔ مجلسِ عمل کی سرپرستی میں ہر روز کسی نہ کسی کالونی یا محلے میں مشترکہ جلسہ ہوتا، جس کے روحِ رواں حضرت موصوف ہوتے تھے۔
مولانا مدن پوری زندگی کے آخری سالوں میں دل کے عارضے میں مبتلا ہوئے اور یہی بیماری ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔ سیالکوٹ کے قریب ایک گاؤں میں ان کا تبلیغی پروگرام تھا وہیں سب سے پہلے انھیں یہ تکلیف ہوئی، شہر سیالکوٹ لایا گیا۔ ابتدائی علاج معالجہ کے بعد پل ایک کی جامع مسجد اہلِ حدیث میں انھیں احباب لے گئے۔ ادھر فیصل آباد میں ان کی بیماری کی اطلاع ملی تو مدن پورہ کے حضرات سیالکوٹ پہنچ گئے۔ دو تین روز بعد صحت بحال ہوئی تو وہاں سے انھیں گھر لے آئے۔ اس کے بعد ایک عرصہ تک وہ دعوت و تبلیغ کے میدان میں حسبِ معمول سرگرم رہے۔ ایک بار مندر گلی کی مسجد میں بیٹھے تھے، احباب نے پکوڑے بازار سے منگوائے تو سبھی حاضرین ان کے کھانے میں شریک ہوئے، اسی دوران میں وہاں مولانا علی محمد صمصام بھی تشریف لے آئے تو انھوں نے مولانا مدن پوری سے فرمایا: مولوی رفیق! تمھیں دل کی تکلیف ہے، تو یہ پکوڑے کیوں کھا رہے ہو؟ مولانا مدن پوری فرمانے لگے: میں نے ’’بسم اللّٰه الذي لا یضر مع اسمہ شيء ۔۔۔ الخ‘‘ دعا پڑھ لی ہے۔ مولانا علی محمد صمصام فرمانے لگے: کیا یہ بدپرہیزوں کے لیے دعا ہے؟ اپنے آپ پر رحم کیا کرو۔
|