Maktaba Wahhabi

356 - 391
مولانا مدن پوری میں مسلکی حمیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، کسی صورت وہ اپنے مسلک پر آ نچ نہیں آنے دیتے تھے۔ فیصل آباد میں ایک مرحلے پر علمائے دیوبند سے ٹھن گئی۔ ہوا یوں کہ ہمارے نوجوان مولانا برق التوحیدی صاحب نے ’’علمائے دیوبند اور انگریز‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی۔ اس کی اس وقت ضرورت کیا تھی، اس کا پسِ منظر کیا تھا، اس تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں۔ کتاب طبع ہوئی تو دیوبندی حضرات میں ارتعاش اور ردِ عمل کے طور پر کارروائی کا ہونا ایک بدیہی عمل تھا۔ فریقین کے جلسے شروع ہوئے اور باہم رد و قدح کا بازار گرم ہو گیا۔ انہی حالات میں حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر بھی تشریف لائے۔ امین پور بازار کی جامع مسجد اہلِ حدیث میں عشاء کی نماز کے بعد پروگرام تھا، سردیوں کے ایام تھے، خطبہ مسنونہ کے بعد انھوں نے فرمایا کہ موسم سرد ہے مگر ماحول بڑا گرم ہے۔ انھوں نے باہم اتفاق و اتحاد کو موضوعِ سخن بنایا، مگر حالات جوں کے توں رہے۔ اسی دوران میں مندر گلی کی جامع مسجد اہلِ حدیث میں جلسہ کا پروگرام بنایا تو اس کے مدِمقابل کچہری بازار کی جامع مسجد میں دیوبندی حضرات نے پروگرام کیا۔ تناؤ کی اسی کیفیت میں یہ دونوں پروگرام ہوئے۔ مندر گلی میں مولانا مدن پوری نے مسلکِ اہلِ حدیث کی ترجمانی کا حق ادا کیا اور تقریر کے دوران میں مولانا مفتی زین العابدین اور مولانا ضیاء القاسمی صاحبان کا نام لے کر فرمایا کہ مولانا صاحبان! ہمارے ایک نوجوان کی تحریر پر اس قدر برہمی اور ناگواری کہ سارے شہر کا امن داؤ پر لگا دیا۔ میں مصلحت اندیش ہوں مگر بے حمیت و بے غیرت نہیں ہوں۔ اگر آپ نے اپنے حضرات کو لگام نہ دی تو میں بتلاؤں گا آپ کے اکابر نے کیا کیا لکھا ہے اور تقدس کے پردے میں اکابرینِ امت کے بارے میں کیا زبان استعمال کی ہے۔ ان کی اس گفتگو کے بعد بحمد اللہ کسی اور جلسہ کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔
Flag Counter