قبول ہو۔
… آپ کا رفیق مدنپوری
فیصل آباد
24-11-08
خط آپ نے ملاحظہ فرمایا، مگر اس کے تقریباً تین ماہ بعد ۳ مارچ ۱۹۸۱ء کو وہ اس دنیا سے چل بسے اور یوں ؎
آں قدح بشکست و آں ساقی نہ ماند
شیخ الحدیث سے مراد شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد صدیق صاحب ہیں اور میاں صاحبان سے میاں عبدالستار اور میاں عبدالعزیز مراد ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مولانا مدن پوری مرحوم نے جامع مسجد اہلِ حدیث کی تعمیرِ نو کا آغاز ۱۹۷۶ء میں کیا جسے ایک سال کے اندر اندر ۱۹۷۷ء میں بڑی لگن اور شب و روز کی محنت سے مکمل کیا۔ مسجد میں حفظِ قرآن کی کلاس کا اجراء کیا اور اس کے لیے مولانا قاری سیف اللہ صاحب کی خدمات حاصل کیں، مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہ چل سکا۔ مولانا مرحوم ایک کامیاب خطیب تھے، مگر اس کے باوجود انھوں نے صرف ایک ہزار روپے کے مشاہرہ پر زندگی گزاری اور کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلایا۔ بلاشبہ ہمارے اسلاف کا یہی طریقہ رہا ہے، انھوں نے جہاں ڈیرہ لگایا، وہیں سے ان کا جنازہ اٹھا۔ وہ ضروریاتِ زندگی کی فراوانی کے لیے ہر سال، چھے ماہ بعد نئی جگہ کی تلاش میں نہیں نکلے۔ دعوت و تبلیغ ہی کو اپنا مشن بنایا اور قوتِ لا یموت پر زندگی بسر کر دی۔ وہ بلاشبہ ﴿ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللّٰهِ ﴾ [یونس: ۷۲] کے مصداق تھے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان کی مساعیِ جمیلہ کو قبول فرمائے۔
|