Maktaba Wahhabi

352 - 391
کملیا دیس بیگانیا او دعوے کریں در اُتھاں پان والے ہتھ جھاڑ چلے بادشاہ ایتھوں آئے ہوئے کفن پہنان والے دبے ہیٹھ زمین دے اُو پئے نے جیہڑے سدا سی حکم چلان والے اِکو نام خدا دا رہے حافظ باقی لوگ فنا ہو جان والے ملک کی تقسیم کے بعد منڈی بچیکی کے نزدیک ایک گاؤں مانا ٹبہ میں قیام پذیر ہوئے۔ وہ منشی فاضل تھے، او۔ٹی ٹیچر بھی رہے۔ مانا ٹبہ میں جامع مسجد تعمیر کر کے خطابت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ کچھ عرصہ منٹگمری بازار کی جامع مسجد اہلِ حدیث میں بھی خطیب رہے۔ آخری سالوں میں کئی بیماریوں کا شکار ہوئے تو فیصل آباد کے محلہ نورپور میں اپنے بڑے بیٹے چوہدری محمد بشیر صاحب کے ہاں تادمِ آخریں رہے۔ بالآخر یہ مجسمہ اخلاص دینِ حق کا عظیم خادم مورخہ ۳ نومبر اتوار ۱۹۸۵ء نورپور میں دنیائے فانی سے دارِ آخرت کو روانہ ہو گیا۔ اگلے دن ۴ نومبر کو مانا ٹبہ لے جا کر دوبارہ جنازہ پڑھا گیا اور وہیں دفن کیے گئے۔ إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔ حافظ صاحب کے اسی گاؤں مانا ٹبہ میں مناظرہ ہوا، سلطان المناظرین حافظ عبدالقادر روپڑی اور امام المناظرین مولانا احمد دین گکھڑوی بھی موجود تھے۔ مولانا احمد دین صاحب کا اصرار تھا کہ مناظرہ میں خود کروں گا مگر ان سے عرض کی گئی کہ آپ بوڑھے ہو گئے ہیں، صحت بھی اجازت نہیں دیتی، آپ اپنے نوجوان مناظر مولانا مدن پوری کو موقع دیں۔ چنانچہ مولانا مدن پوری وہاں مناظر مقرر ہوئے۔ جب ابتدائی مناظرہ کی بات ہو رہی تھی تو مولانا محمد عمر نے کہا: مولوی احمد دین مجھ سے مناظرہ کیسے کر سکتے ہیں؟ ادھر کتاب کو اپنے ہاتھوں میں پھیلا کر کہا: یہ اگر یہاں سے کتاب پڑھ لیں تو پھر میں ان سے مناظرہ کروں گا۔ مولانا مدن پوری نے فوراً اٹھ کر کتاب کو اسی
Flag Counter