نوکری کی لالچ میں قادیانی ہو گیا۔ حافظ صاحب خطبہ جمعہ میں قادیانوں کی پرزور تردید کرتے تھے۔ ایک جمعہ وہ لڑکا مسجد میں آیا۔ نماز ہو چکی، ابھی لوگ مسجد میں تھے کہ وہ کہنے لگا: حافظ جی جو پیسے آپ نے ایک دفعہ قرض لیے تھے وہ ابھی تک ادا نہیں کیے تم مولوی لوگ ایسے ہی ہوتے ہو لوگوں سے لے کر کھا جاتے ہو اور واپسی کا نام نہیں لیتے اور لوگوں کو منبر پر چڑھ کر وعظ سناتے ہو۔ اس کا یہ محض حافظ صاحب پر الزام تھا وہ معاشی طور پر خوش حال تھے۔ حافظ صاحب نے فرمایا: میں نے تم سے کوئی قرض نہیں لیا لیکن وہ اپنی غلط بیانی پر ڈٹا رہا، یوں مسجد میں شور برپا ہو گیا۔ بالآخر حافظ صاحب نے فرمایا: میں خود فیصلہ کر دیتا ہوں۔ آپ مصلے سے اٹھے منبر پر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے: میں دعا کرتا ہوں آپ آمین کہیں۔ چنانچہ انھوں نے گڑگڑا کر دعا کی: اے اللہ! اگر میں نے جلال دین سے کوئی قرضہ لیا ہے اور ادا نہیں کیا تو مجھے اگلے جمعہ سے پہلے پہلے جلال دین کی زندگی ہی میں ہلاک کر دے اور اگر جلال دین نے مجھ پر جھوٹ اور بہتان لگایا ہے تو اس کو اگلے جمعہ سے پہلے ہلاک کر دے۔ سب لوگوں نے آمین کہی۔ اللہ تعالیٰ کا کرنا یہ ہوا کہ جلال دین جمعہ سے پہلے ہی منگل کو مر گیا۔ یہ خبر پورے علاقے میں پھیل گئی، جلال دین کا انجام دیکھ کر کئی مرزائی مرزائیت سے تائب ہوئے۔
حافظ صاحب کو میں نے پورے پچاس سال انتہائی قریب سے دیکھا۔ غصہ، بغض اور کینہ کی بیماری سے کلیتاً پاک تھے۔ میں نے انھیں نہایت بہترین عالمِ دین اور ایک پاک باز انسان پایا۔ مرزائیت کی تردید میں کئی رسالے بھی لکھے جو انھوں نے شائع کرا کے لوگوں میں تقسیم کیے۔ ابتدائی دور میں ایک پنجابی منظوم رسالہ بنام سہ حرفی لکھا اس میں ایک رباعی اس انداز میں ہے:
|