دروازہ جو سالانہ اہلِ حدیث کانفرنس (۳، ۴، ۵ نومبر ۱۹۶۷ء) میں زیرِ صدارت حضرت مولانا پیر سید محب اللہ شاہ راشدی منعقد ہوئی، اس کے ایک اجلاس میں جو غالباً ظہر یا عصر کے بعد منعقد ہوا تھا اس میں میری آنکھوں نے یہ منظر دیکھا اور کانوں نے سنا کہ مولانا مدن پوری درود شریف کے فضائل پر تقریر کر رہے ہیں، دریا کی سی روانی اور آبشار کی سی فراوانی ہے، اسی اثنا میں تقریر کا وقت ختم ہو جاتا ہے، اسٹیج سیکرٹری سرخ بتی جلا دیتے ہیں، مولانا اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے اختتامی الفاظ کہتے ہوئے پیچھے ہوتے ہیں تو سامعین کھڑے ہو جاتے ہیں اور بآواز بلند کہتے ہیں تقریر مکمل کرنے دیجیے، تقریر کے لیے مزید وقت دیجیے۔ سامعین کا اشتیاق دیکھ کر اسٹیج سیکرٹری مولانا مرحوم کو دوبار تقریر کی دعوت دیتے ہیں اور وہ دوبارہ اسٹیج سنبھالتے ہیں اور اپنی تقریر مکمل کرتے ہیں۔
اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان کی تقریر کی پذیرائی کا کیا عالم تھا، وہ اکثر علما و خطبا سے فرمایا کرتے تھے کہ اپنی تقریر کو محض قصے کہانیوں سے اور شعر و شاعری سے نہیں، بلکہ تقریر کو دلائل و براہین سے سجایا کرو۔ وہ یہ بھی فرمایا کرتے تھے جو مولوی صاحب ’’جیب دا تے لنگوٹے دا پکا اِے اونھوں ستے خیراں نے‘‘ یعنی جو کسی کے سامنے دست دراز نہیں کرتا اپنی جیب پر قناعت کرتا ہے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتا اور اپنی عزت و ناموس کی پاسداری کرتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے۔
چیچہ وطنی کے قریب ۱۶۸ گاؤں ہے وہاں ایک بار طلاقِ ثلاثہ پر مناظرہ ہوا، فریقین کے مابین تناؤ رہا اور دوبارہ مناظرے کے آثار پیدا ہونے شروع ہوئے تو وہاں کے رفقا نے اس ناکارہ کو اور مولانا مدن پوری کو دعوت دی۔ ہم مغرب کے قریب وہاں پہنچ گئے۔ حضرت مولانا حافظ عبدالرشید اظہر مرحوم بھی تشریف لا چکے
|