Maktaba Wahhabi

342 - 391
مولانا چیمہ مرحوم سے مدن پوری صاحب کی بے تکلفی تھی اور کبھی کبھی باہم مزاح بھی ہو جاتا۔ ایک بار چیمہ صاحب نے فرمایا: مولوی رفیق! شب و روز آپ وعظ و تبلیغ کے لیے آتے جاتے ہیں، آپ یہ تقریریں کیسے کرتے ہیں؟ مولانا مدن پوری نے فرمایا: مولانا! آپ خطیب نہیں خطیب گر ہیں اور آپ کے لیے یہ شغل چنداں مشکل بھی نہیں، بس چند دنوں کی بات ہے۔ چیمہ صاحب نے فرمایا: وہ کیسے؟ مدن پوری صاحب نے کہا: شہر میں اومنی بس چلتی ہے، آپ اچھی قسم کی کچھ علیحدہ علیحدہ کمپنیوں کی ٹافیاں لیں اور بس میں انھیں فروخت کریں۔ ہر قسم کی ٹافی کے علیحدہ علیحدہ اوصاف اور خصائص و فوائد بیان کریں، چند روز بعد حجاب دور ہو جائے گا اور تقریر کرنا آجائے گا۔ ان کی اس بات سے ساری مجلس کشتِ زعفران بن گئی۔ ایک بار چیمہ صاحب فرمانے لگے: مولوی رفیق! تمھارا حال تو ترکھان کی مانند ہے جیسے وہ کہتا ہے: ’’منجھی پیڑی ٹھکا لو‘‘ اسی طرح آپ حضرات کہتے ہیں: ’’وعظ کرا لو، وعظ کرا لو‘‘ مگر اس قسم کا مزاح مولانا ناظم آبادی یا کسی اور عالم سے نہیں ہوتا تھا۔ مولانا مدن پوری کی تقریر دلائل پر مبنی ہوتی، اس میں مزاح یا ہنسی کا کوئی عنصر نہ ہوتا، جو موضوع بھی اختیار کرتے اس کا حق ادا کر دیتے اور اس پر دلائل کے انبار لگا دیتے۔ ان کی اسی سنجیدگی کی بنا پر وہ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کی کانفرنس کے ایک اہم ترین خطیب تھے۔ ۱۹۶۲ء کو لاہور میں موچی دروازے کے باہر جو تین روزہ (۲، ۳، ۴ نومبر) کانفرنس منعقد ہوئی، ۳ نومبر کی رات میاں محمود علی قصوری کی صدارت میں جن حضرات نے تقریریں کیں وہ تھے: مولانا محمد اسماعیل صاحب، مولانا رفیق مدن پوری اور ممتاز دیوبندی عالم، مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری۔[1] بیرون موچی
Flag Counter