اس دور میں تین پیسے کا خط ہوتا تھا، ٹیلی فون کی سروس عام نہ تھی، اسی کارڈ کے ذریعے سے جماعتی احباب اپنے پسندیدہ خطیب سے اپنے جلسہ میں آنے کا وعدہ لیتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ دعوتی کارڈ کے ساتھ جوابی کارڈ بھی بھیجا جاتا تھا اور اس کا جواب ہی جلسہ میں حاضری کا ثبوت شمار کیا جاتا تھا۔ مولانا مرحوم کے پاس بھی اسی قسم کے خطوط آتے تو کئی بار وہ ادارۃ العلوم الاثریہ منٹگمری بازار میں تشریف لا کر ان کا جواب لکھتے تھے۔ اس ناکارہ نے دیکھا کہ وہ پروگرام میں شرکت کی یقین دہانی کے ساتھ آخر میں یوں لکھتے:
آپ کا
رفیق
مدن پوری
ادارہ کے ساتھ ان کا دیرینہ تعلق تھا، بلکہ جیسا کہ مولانا ناظم آبادی صاحب حفظہ اللہ نے ذکر کیا کہ مولانا محمد اسحاق چیمہ نے ادارہ کے قیام کے لیے سب سے پہلے ہم تین ساتھیوں کو بلایا: 1. شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ صاحب جھال والے، 2. مولانا محمد رفیق اور 3. مولانا ناظم آبادی۔ کتاب و سنت کی نشر و اشاعت اور جامعات و مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والوں کے لیے حدیث میں تخصص اس ادارہ کا ہدف بتلایا۔ اس کے تعاون کے سلسلے میں مولانا عبداللہ صاحب نے فرمایا کہ مبلغ چھے ہزار چھے روپے تینوں حضرات سالانہ جمع کرائیں گے، وہ اس کا انتظام خود جیب سے کریں یا اپنے حلقۂ احباب سے لے کر جمع کرائیں، باقی خرچہ میں جمع کر کے دوں گا، چنانچہ ابتدائً چند سالوں تک یہی سلسلہ چلتا رہا، مگر اس کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا اور اس کی تمام تر ذمہ داری حضرت مولانا عبداللہ اور مولانا چیمہ پر آگئی۔ ادارہ کے تنظیمی اجلاس، اس کا نام اور اس کے نصاب کی میٹنگیں اس کے بعد ہوتی رہیں۔
|