Maktaba Wahhabi

340 - 391
مولانا مدن پوری کی شادی چنیوٹ میں ہوئی تو کچھ عرصہ بعد سسرال انھیں فیصل آباد کے مدن پورہ میں لے آئے، یہاں ان کے سسرالی رشتے میں ماموں حافظ علم دین قیام پذیر تھے۔ یہاں انھوں نے پہلے سبزی کی دکان بنائی اور ساتھ ساتھ لکڑی کا ٹال بھی بنایا۔ مدن پورہ کی مسجد اہلِ حدیث میں خطابت و امامت کے فرائض مولانا فقیر اللہ سرانجام دیتے تھے۔ وہ پتلے دبلے لمبے قد کے نہایت نیک اور پارسا انسان تھے۔ ضلع امرتسر کے موضع ’’بھینیاں‘‘ سے وہاں کی انصاری برادری کے ہمراہ یہاں مدن پورہ میں آبسے تھے اور وہ ان کے امام و خطیب تھے۔ ایک بار مولانا فقیر اللہ اپنے کسی کام کے لیے باہر تشریف لے گئے تو جمعہ کے روز تک واپس نہ آسکے۔ اب جمعہ پڑھانے کے لیے جماعتی و نمازی حضرات اس فکر میں تھے کہ جمعہ پڑھانے کا کیا انتظام کیا جائے۔ اسی دوران میں مولانا مدن پوری کے بزرگ جناب حافظ علم دین صاحب نے کہا کہ ہمارا برخوردار بھی جمعہ پڑھا سکتا ہے۔ اسے جمعہ پڑھانے کا موقع دینا چاہیے۔ چنانچہ مولانا صاحب نے وہاں جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا۔ سامعین نے ان کا اندازِ گفتگو پسند کیا تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ کے لیے جمعہ کا خطبہ و نماز تو یہی پڑھایا کریں اور بچوں کی تعلیم اور دوسری پانچوں نمازیں بدستور مولانا فقیر اللہ صاحب پڑھائیں۔ یوں وہ مدن پورہ کے خطیب مقرر ہوئے، ان کی خدمت کے لیے ۷۰ روپے مشاہرہ مقرر کیا گیا اور وہ آخر وقت تک وہاں یہ فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ پھر آگے جا کر یہی مدن پورہ ان کی پہچان بن گیا۔ اپنی خطابتی صلاحیتوں کے باعث تھوڑے ہی عرصے میں وہ مدن پورہ سے نکل کر ملک کے طول و عرض میں دعوت و تبلیغ کے میدان میں صفِ اول کے خطبا میں شمار ہونے لگے۔
Flag Counter