Maktaba Wahhabi

319 - 391
مولانا حسن کے بارے تنہا حضرت سلفی کا یہ شکوہ نہیں، بلکہ ان کے ہم مکتب خطیب الہند حضرت مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈا نگری کو بھی یک گونہ یہی شکوہ تھا۔ چنانچہ حضرت رحمانی لکھتے ہیں: ’’رحمانی رفقا میں سے جناب مولانا عبدالغفار صاحب حسن عمر پوری تو ایک اور وادی میں چل پڑے۔ میں ساتویں جماعت میں تھا تو وہ چھٹی میں تھے۔ خوب خوب مجھ سے اور ان سے منطق، فلسفہ اور کلام کی کتابوں کے مضامین پر بحثیں اور مذاکرے رہے۔ کبھی کبھی مناظروں کی مشقوں میں میرا ان کا مقابلہ بھی ہوا۔ جن میں ایک مناظرہ وفاتِ مسیح و حیاتِ مسیح پر بھی تھا۔ روداد اور نتیجہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہاں غرض صرف اس قدر ہے کہ ہم تو وہی تیرہ سو صدی ہجری کے پہلے والے لقب اہلِ حدیث کے داعی اور محرک رہ گئے اور میرے رفیق ایک جست لگا کر اس ’’الاسلام‘‘ میں داخل ہو گئے، جہاں حدیثوں کی عظمت اور حقانیت اور ان کی صداقت و مبنی برحقیقت ہونے کا اعتراف ہی نہیں، بلکہ انکار ہے۔ غرض ان سے اتنا عرض ہے ع ہمہ عمر باتو قدح خورم و نہ رفت رنج خمار ما چہ قیامتی کہ نمی رسی ز کتاب شاں بہ کنار ما (’’ترجمان‘‘ دہلی ص: ۱۹، ۲۰؍ جولائی ۱۹۵۶ء)
Flag Counter