جماعت اسلامی اور اس کے بانی حضرت مولانا مودودی ’’اقامتِ دین‘‘ کی دعوت لے کر اٹھے تھے، مگر نبوی منہج سے ہٹ کر اس کے لیے جب انھوں نے پارلیمنٹ کی سیاست کو ذریعہ بنایا اور اس کے لیے تمام داؤ پیچ کو اختیار کرنے کی ’’حکمتِ عملی‘‘ اختیار کی تو ۱۹۵۷ء میں جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کے اجلاس کے بعد، جو ماجھی گوٹھ نزد صادق آباد منعقد ہوا تھا۔ جماعت کی بنیادی رکنیت سے بھی مولانا حسن مرحوم مستعفی ہو گئے۔ اس کے بعد ان کی ساری عمر تعلیم و تعلم میں صرف ہوئی۔ الجامعۃ السلفیہ فیصل آباد کے ابتدائی ایام میں جن اعیان و مشایخ نے مسندِ تدریس کو زینت بخشی ان میں ایک حضرت مولانا عبدالغفار حسن مرحوم بھی تھے۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ اس قافلۂ علم کے آخری حدی خواں آپ تھے۔ ان کے علمی وثوق اور تبحر اور عربی زبان پر کامل دسترس کا نتیجہ تھا کہ انھیں سعودی عرب میں اسلامی یونیورسٹی مدینہ طیبہ سے کسی درخواست اور اپیل کے بغیر بلاوا آیا جہاں پورے ۱۶ سال حدیث، علومِ حدیث اور اسلامی عقائد و افکار پر درس دیا۔
مولانا حسن مرحوم اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن رہے اور تقریباً نو سال تک کونسل میں قرآن و سنت کا علم بلند کرتے رہے۔ صدر ضیاء الحق مرحوم کے حوالے سے ان کی یہ پختہ رائے تھی کہ انھیں امریکہ نے ایک پلاننگ کے تحت شہید کروایا۔ ان کے سانحۂ ارتحال کے بارے میں راقم نے ان سے براہِ راست سنا کہ صدر ضیاء الحق مرحوم نے بہاولپور جانے سے پہلے علماء و اعیان کا ایک اجلاس بلایا۔ علمائے کرام نے ان کے نفاذِ اسلام کے بارے میں لیت و لعل پر بڑی نکیر کی تو انھوں نے کہا کہ اس راہ کی جس قدر مشکلات ہیں وہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ میں آپ حضرات سے وعدہ کرتا ہوں کہ بہاولپور سے واپسی پر آپ کا یہ شکوہ دور کردوں گا۔ مولانا فرماتے تھے: ان کا یہی
|