ناکارہ طرح دے دیتا۔ وہ اہلِ حدیث کمپلیکس بنانا چاہتے تھے، جس میں کتاب و سنت کی اشاعت اور مسلکِ محدثین کی پاسبانی ہو اور یہ کام اردو، عربی، انگریزی تینوں زبانوں میں کرنے کا منصوبہ تھا۔ اس کے لیے سب سے لیٹیسٹ کمپیوٹر سعودی عرب سے لائے تھے اور نادر اور تازہ مطبوعات بھی منگوا لی تھیں۔ اسی منصوبہ کی تکمیل کے لیے انھوں نے ۱۸ مارچ ۱۹۸۷ء کو اپنے مکان پر علمائے کرام اور احباب جماعت کا ایک اجلاس بلایا۔ یہ ناکارہ تو اس میں حاضر نہ ہو سکا، مگر دوستوں نے بتایا کہ علامہ صاحب ایک عظیم الشان اشاعتی ادارہ بنانے کی فکر میں ہیں اور اسی اجلاس میں میرا شکوہ بھی کیا کہ میں نے انھیں ہر قسم کی پیشکش کی ہے کہ لاہور آجاؤ، مگر وہ فیصل آباد چھوڑنا نہیں چاہتا۔
سانحہ سے کچھ عرصہ پہلے گلی نمبر: ۱۳ بازار نمبر: ۳ رضا آباد فیصل آباد میں حاجی شیخ ثناء اللہ صاحب کی مسجد میں ان کا خطاب ہونا تھا وہ خلاف معمول ظہر کی نماز کے بعد ہی فیصل آباد تشریف لے آئے۔ یہ ناکارہ اس روز محترم جناب برق التوحیدی حفظہ اللہ کی کتاب کی مراجعت میں ان کے ساتھ شریک تھاوہ اسے اگلے روز طباعت کے لیے پریس میں دینا چاہتے تھے۔ ہم دونوں چھپ چھپا کر ایک جگہ یہ کام کرنے لگے۔ ادھر علامہ صاحب میری تلاش میں ادارۃ العلوم الاثریہ میں فون پر رابطہ کرتے تو جواب دے دیا جاتا کہ وہ آج ادارہ میں نہیں آئے۔ مناظرِ اسلام مولانا محمد رفیق مدن پوری کے برادر نسبتی جناب عبدالرحمان صاحب کو دو بار گھر بھیجا، مگر میں ہاتھ نہ آیا۔ حتی کہ انھوں نے گھر کی تلاشی لے ڈالی، یہ ناکارہ گھر میں ہوتا تو ان سے ملاقات ہوتی۔ کام سے فارغ ہو کر گھر پہنچا تو معلوم ہوا علامہ صاحب میری تلاش میں ہیں۔ مغرب کی نماز کے بعد رضا آباد پہنچا۔ جہاں وہ تشریف فرما تھے، وہ کمرہ ان کے شیدایوں سے
|