Maktaba Wahhabi

310 - 391
کی۔ ضمناً ایک دو مزید عناوین پر بھی وہاں مقالے پیش ہوئے، تاہم بنیادی موضوع یہی شریعت بل تھا۔ پروگرام شروع ہوا تو اتفاقاً ڈاکٹر خالد اسحاق صاحب کی تشریف آوری میں تاخیر ہو گئی تو حضرت سید صاحب نے مجھے مقالہ پڑھنے کا حکم فرمایا۔ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر صاحب تشریف لے آئے تو میں نے سوئے ادب سمجھتے ہوئے اپنا مقالہ پڑھنا موقوف کر دیا، کیوں کہ پہلا مقالہ انھوں نے ہی پڑھنا تھا۔ مگر علامہ صاحب نے فرمایا: آپ اپنا مقالہ مکمل کریں۔ ڈاکٹر صاحب تاخیر سے تشریف لائے ہیں تو وہ اب تاخیر سے ہی بات کریں گے۔ چنانچہ راقم کی گفتگو کے بعد ڈاکٹر صاحب نے بات کی تو انھوں نے فرمایا: شریعت بل کی شرعی پوزیشن پر اور اس کی ضرورت ہونے یا نہ ہونے پر جو کچھ مجھ سے پہلے کہا گیا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ بس اس پر آمین کہوں اور بیٹھ جاؤں۔ البتہ اس کی دستوری پوزیشن کے بارے میں چند باتیں عرض کیے دیتا ہوں۔ اس کے بعد حضرت علامہ صاحب نے اس بل کے خدوخال پر خوب تبصرہ کیا اور میری باتوں کی تائید بھی فرمائی۔ علامہ صاحب رحمہ اللہ میرے اس مقالے سے اس قدر متاثر ہوئے کہ یہ مقالہ ان ہی کے مشورے سے سیالکوٹ میں محترم پروفیسر ساجد میر حفظہ اللہ کی صدارت میں گوجرانوالہ میں شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ رحمہ اللہ کی زیرِ صدارت پڑھا گیا اور جمعیت کے ترجمان میں بھی شائع ہوا۔ اس کے بعد علامہ صاحب نے یہ کوشش شروع کر دی کہ یہ ناکارہ فیصل آباد چھوڑ کر لاہور منتقل ہو جائے۔ یہی پیشکش اس سے پہلے لاہور کے میرے ایک نہایت مہربان بزرگ نے بھی کی اور راولپنڈی کی جماعت نے بھی، مگر میرے لیے اسے قبول کرنا ممکن نہ تھا۔ علامہ صاحب اسی حوالے سے گاہے بگاہے فون پر بات کرتے اور یہ
Flag Counter