تمھاری وجہ سے معذرت کر کے جلدی آگیا ہوں۔ عرض کی: یہ ’’شامِ غریباں‘‘ کیا ہوئی؟ فرمایا: نواب زادہ کے ہاں ہر ماہ ایک روز مجلس ہوتی ہے۔ کچھ اخبار نویس اور کچھ دیگر حضرات ہوتے ہیں، ملکی حالات پر غم غلط کرنے کے لیے بیٹھ جاتے ہیں۔
ایک روز میں علامہ صاحب کے ہمراہ تھا وہ گاڑی چلا رہے تھے اور ساتھ ساتھ علم و فضل کے حاملین کا ذکر بھی کر رہے تھے،ا سی دوران میں انھوں نے فرمایا: مولوی صاحب! محنت اور لگن سے انسان ہر چیز حاصل کر سکتا ہے، ہر مقام و مرتبہ کو پا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتے، البتہ رسول نہیں بن سکتا یہ اللہ تعالیٰ کی خاص عطا ہے، جس کا محنت و مجاہدہ سے کوئی تعلق نہیں۔ جس سے علامہ صاحب کی فکری پرواز کا انداز ہو سکتا ہے۔
علامہ صاحب کی زندگی کے آخری سال میں شریعت بل کی دھوم تھی اور علامہ صاحب اس کے بڑے ناقدوں میں سے تھے۔ یہ بل ۱۲ جولائی ۱۹۸۵ء کو سینٹ کے اجلاس میں قاضی عبد اللطیف صاحب اورمولانا سمیع الحق صاحب نے پیش کیا جو مختلف مراحل سے گزرتا ہوا ۲۶ جنوری ۱۹۸۶ء کو سینٹ میں زیرِ غور آیا۔ سینٹ نے رائے عامہ معلوم کرنے کے لیے اس کو اخبارات میں مشتہر کر دیا، جس کے نتیجے میں اس کی تائید و حمایت اور اس کی تردید میں بیانات اور مضامین شائع ہونے شروع ہو گئے۔ اسی دوران میں کراچی کی جماعت اہلِ حدیث، جس کے روحِ رواں حاجی محمد سعید ابریشم والے تھے، نے کورٹ روڈ پر واقع جامع مسجد میں ایک سمینار اسی موضوع پر کرانے کا پروگرام بنایا اس میں تین حضرات مدعو تھے: ایک حضرت علامہ صاحب رحمہ اللہ دوسرے معروف وکیل ڈاکٹر خالد اسحاق مرحوم اور تیسرا یہ ناکارہ۔ اس سیمینار کی صدارت شیخ العرب والعجم حضرت شیخ سید بدیع الدین راشدی (نور اللہ مرقدہ) نے
|