حاضر ہوا۔ علامہ صاحب دیر سے تشریف لائے تقریباً بیس پچیس منٹ گفتگو کی اور اسی وقت واپس تشریف لے گئے۔ مگر تحریکِ استقلال کے ساتھ وہ زیادہ دیر نباہ نہ کر سکے۔ باوجود اس کے کہ علامہ صاحب تحریک استقلال کے جنرل سیکرٹری تھے، مگر منبر و محراب اور وہ بھی چنیاں والی مسجد کے منبر کی مجبوریوں کی وجہ سے وہ جلد اس سے الگ ہو گئے۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ کوئی بڑے سے بڑا خطیب بھی مسجد کے رفقا کی ہمدردیوں کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد ایم۔ آر۔ ڈی بنی تو علامہ صاحب اس کے ہمنوا تھے۔ ایم۔ آر۔ ڈی کے جلسوں کی رونق وہی تھے، ان کی دھواں دھار تقریر کے بعد کسی کا چراغ نہیں جلتا تھا۔ صوبہ پنجاب میں ایم۔ آر۔ ڈی کے جلسے ہوتے، عموماً نواب زادہ نصر اللہ خان کی زیرِ صدارت یہ پروگرام ہوتا اور ان میں سب سے مقبول علامہ صاحب ہی تھے اور ان کی تقریر کا سب سے بڑا ہدف صدر ضیاء الحق ہوتے تھے۔ ایم۔ آر۔ ڈی میں اس قدر پذیرائی کے باوجود جب آخری مجلس شوری جمعیت اہلِ حدیث کا اجلاس لارنس روڈ پرہوا تو ارکان شوری نے ایم۔ آر۔ ڈی کے جلسوں میں علامہ صاحب کی تقاریر کا محاسبہ کیا۔ علامہ صاحب نے اپنا بھرپور دفاع کیا، مگر ارکان شوریٰ کے اصرار پر آیندہ ایم۔ آر۔ ڈی کے جلسوں میں نہ جانے کا اعلان فرما دیا۔
علامہ صاحب نواب زادہ نصراللہ خاں مرحوم کے مداح تھے، ایک رات عشا کی نماز کے بعد یہ ناکارہ علامہ صاحب کے ہمراہ تھا۔ لاہور کے درمیان میں نہر کے کنارے ہم جا رہے تھے کہ ایک جگہ انھوں نے گاڑی روک لی اور فرمایا: تم گاڑی میں بیٹھو میں جلد واپس آجاؤں گا۔ یوں وہ تیز تیز قدموں سے چلے گئے۔ تقریباً آدھا گھنٹہ کے بعد تشریف لائے تو میں نے پوچھ ہی لیا کہ کہاں تشریف لے گئے تھے؟ جواباً فرمایا: نواب زادہ صاحب کے ہاں گیا تھا آج ہماری ’’شام غریباں‘‘ تھی۔
|