اس جماعت نے کی ہے، جسے پاکستان میں وہابی کہا جاتا ہے اور وہ اہلِ حدیث ہیں۔ جماعت اسلامی کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ حامدی صاحب، علامہ کی اس بات کا کوئی جواب نہ دے سکے خاموشی سے بیٹھ جانے میں ہی انھوں نے عافیت سمجھی۔
جرنل سوار خان اور حنیف رامے کے دور میں اقتدار میں جو کھری کھری باتیں ان کے منہ پر انھیں سنائیں وہ بھی علامہ صاحب کی حق گوئی کا ایک تابناک باب ہے۔ پیپلز پارٹی کا دور اقتدار ہے۔ رامے صاحب وزیرِ اعلیٰ پنجاب ہیں ایک روز انھیں یہ سوجھی کہ علمائے کرام کو بلایا جائے اور ان سے ان کے عمل و کردار بالخصوص سیاست میں ان کی عمل داری پر بات کی جائے۔ رامے صاحب نے مجلس میں پیپلز پارٹی کے لہجہ میں گفتگو کی اور علمائے کرام کے خلاف نہایت نازیبا باتیں کہہ گئے۔ علامہ صاحب خاموش نہ رہ سکے۔ دینِ اسلام کے حوالے سے علمائے کرام کی خدمات کا ذکر کیا اور رامے صاحب کی کرتوتوں کا انھیں آئینہ دکھایا تو وہ کچھ بول نہ پایا۔ اجلاس ختم ہوا تو علمائے کرام باری بہ باری علامہ صاحب سے بغل گیر ہو رہے ہیں کوئی بلائیں لے رہا ہے کوئی کہہ رہا ہے کہ آج آپ نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا کردار ادا کرتے ہوئے حق کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا ہے۔
علامہ رحمہ اللہ سیاست کے بھی شہسوار تھے۔ مسجد و محراب میں ہوں یا پبلک جلسہ عام میں ہوں سیاست پر گفتگو، ملک کے ظالم حکمرانوں کو للکارنے اور ملک پاکستان میں کتاب و سنت کے نفاذ کی بات ضرور کرتے۔ ایرمارشل اصغر خان نے تحریک استقلال بنائی تو ائر مارشل کی جرأت و بہادری کے ناطے، ان کے ہمنوا بن گئے۔ ایک بار تحریکِ استقلال کے دفتر فیصل آباد میں جو کچہری بازار سے ملحقہ گلی میں تھا۔ تحریک کا تنظیمی اجلاس تھا علامہ صاحب بھی اس میں مدعو تھے، اسی ناطے یہ ناکارہ بھی وہاں
|