Maktaba Wahhabi

312 - 391
بھرا ہوا تھا۔ میں نے کمرے میں قدم رکھا۔ سلام کہا تو گرج کر بولے: میں ظہر سے آیا ہوا ہوں۔ آپ اب آرہے ہیں، کہاں رہے ہیں آپ؟ میں نے تاخیر سے حاضری کا سبب ذکر کیا تو خاموش ہو گئے۔ سب ساتھیوں سے کہا: اب آپ جائیں میں نے اثری صاحب سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ سب رفقا و خدام کمرے سے میرا منہ دیکھتے ہوئے نکل گئے۔ علامہ صاحب نے اٹھ کے خود دروازے کی چٹخنی لگائی اور بیٹھ گئے۔ پھر تقریباً آدھا گھنٹہ تک اہلِ حدیث کمپلیکس کے بارے میں باتیں کیں اور اس ناکارہ کو بہرصورت لاہور آنے پر آمادہ کرتے رہے۔ علامہ صاحب خطیب تو تھے ہی ٹیبل ٹاک کے بھی ماسٹر تھے، مجال ہے کوئی ان کی بات سنے اور پھر سر نہ دھنے۔ اس پر میرا حال نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کا سا تھا۔ بالآخر میں نے یہ کہہ کر انھیں خاموش کروایا کہ ابھی تو نہیں چلنا نا؟ ذرا مجھے اس کے متعلق سوچنے دیجیے اور اس کے حسن و قبحہ پر غور و فکر کرنے دیجیے۔ فرمانے لگے یہ سوچ و بچار سوچوں میں ہی نہ رہے اس کا فیصلہ جلد کیجیے، تاکہ میں انتظام کر سکوں۔ مجلس برخواست ہوئی۔ عشا کی نماز کے بعد بھرپور جلسہ ہوا۔ اس کے تقریباً ہفتہ عشرہ بعد ۲۰ مارچ بروز جمعۃ المبارک چنیوٹ میں ختمِ نبوت کانفرنس تھی۔ کانفرنس میں حاضری دی، مگر نہایت چھپ چھپا کے۔ علامہ صاحب سے ملاقات سے گریز کرتا رہا کہ ملیں گے اور فرمائیں گے کہ کیا پروگرام بنایا ہے تو کیا جواب دوں گا۔ ان کے ساتھ کھانے میں بھی شریک نہ ہوا، حتی کہ پتا چلتا کہ فلاں گلی سے علامہ صاحب تشریف لا رہے ہیں تو دوسری گلی کا رخ کر لیتا۔ یوں اس فکر و تحفظ میں ان سے علیک سلیک بھی نہ ہو سکی۔ ختمِ نبوت کانفرنس کے تقریباً تین روز بعد ۲۳ مارچ ۱۹۸۷ء کی رات لاہور قلعہ لچھمن سنگھ میں تقریر کے دوران دھماکے میں زخمی ہوئے، سارا جسم چھلنی
Flag Counter