Maktaba Wahhabi

305 - 391
اندازہ کیجیے کہ ’’الاسماعیلیہ‘‘ کے حوالے سے جن اسماعیلی کتب کو انھوں نے مرجع بنایا ہے، ان کی تعداد ایک سو (۱۷۰) ہے۔ دیگر کتب مصادر و مراجع اس پر مستزاد ہیں۔ ان کے علاوہ 11. التصوف 12. دراسات في التصوف۔ بھی ان کی تصانیف ہیں۔ یہی دراسات فی التصوف ان کی آخری کتاب ہے، جس کی تکمیل انھوں نے سانحۂ شہادت (۲۳ مارچ ۱۹۸۷ء) کی شب) سے کچھ وقت پہلے کی۔ کتاب مکمل کرنے کے بعد انھوں نے حسبِ پروگرام جلسہ کر رخ کیا اور وہیں جامِ شہادت نوش کیا۔ علامہ رحمہ اللہ ان تصانیف کے علاوہ باقی ’’فِرق‘‘ پر لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے جماعت اسلامی کے حوالے سے تو خود مجھے انھوں نے فرمایا کہ کچھ مواد جمع کریں، ’’مگر آں قدح بشکت وآں ساقی نہ ماند‘‘ رہے نام اللہ کا! علامہ صاحب اردو عربی کے بلند بانگ خطیب تھے، توحید کے علمبردار اور احیائے سنت کے پاسبان تھے۔ سیاست بھی ان کا موضوع اور وہ وقت کے حکمرانوں کو للکارتے اور ان کے کرتوتوں کے خوب لتے لیتے تھے۔ جب کبھی اور جہاں کہیں خطاب فرمایا ان کی اہلِ حدیثیت ان پر غالب آجاتی۔ مسلک حق کے دفاع میں وہ سیفِ بے نیام تھے اور کسی قسم کی مداہنت یا کمپرومائز کا ان کے ہاں کوئی تصور نہ تھا۔ اپنے اسٹیج پر تو ہر ایک شیر ہوتا ہے، مگر علامہ صاحب نے مشترکہ پروگراموں میں بھی اپنی خطابت کا سکہ منوایا اور مسلک اہلِ حدیث کی ترجمانی کا حق ادا کیا۔ ۱۹۷۴ء میں جب قادیانیوں کو متفقہ طور پر پاکستان نیشنل اسمبلی میں غیر مسلم قرار دیا گیا تو رات کو روالپنڈی راجہ بازار میں شیخ القرآن مولانا غلام اللہ صاحب کی مسجد میں ایک مشترکہ جلسہ ہوا۔ مولانا صاحبزادہ برق التوحیدی صاحب نے بتایا، وہ خود وہاں موجود تھے اور ساری کار روائی دیکھ اور سن رہے تھے کہ مسجد علمائے دیوبند کی اسٹیج ان کا۔ دیوبندی مکتبہ فکر کے مشہور
Flag Counter