نہ ہاری۔ یزدانی صاحب نے بتایا کہ علامہ صاحب نے مجھے فرمایا: یزدانی صاحب! میرے سر کے بالوں کو مضبوطی سے پکڑ کے کھینچتے رہو اور وقفہ وقفہ بعد سر کو جھٹکا دیتے رہو، تاکہ نیند نہ آئے۔ یوں لاہور تک اسی حالت میں یہ سفر طے ہوا۔
اندازہ کیجیے کہ دعوت و تبلیغ کا مشن کس قدر صبر آزما ہے۔ علامہ صاحب اپنی گاڑی خود چلاتے دن کو پراپرٹی کا یا کوئی اور کاروبار کرتے، اس دوران میں جو وقت بچتا کتابوں کا مطالعہ کرتے، رات کو کوئی پروگرام ہوتا تو اس میں شمولیت کرتے، ورنہ تصنیف و تالیف میں رات بسر ہو جاتی۔ ان کی تصانیف کا موضوع ’’فرق‘‘ ہے۔ یہ موضوع بڑا دلچسپ اور نہایت مشکل ہے۔ ہر فرقے کے عقائد و افکار اور ان کی عبادات و معمولات سے آگاہی حاصل کرنا آسان نہیں۔ اس موضوع پر قدیم زمانے سے اہلِ علم نے کتابیں لکھی ہیں اور قدیم فرق کے عقائد و افکار بیان فرمائے ہیں، چنانچہ اس سلسلے میں امام ابو الحسن اشعری کی ’’مقالات الإسلامین‘‘ علامہ ابو منصور عبدالقادر بن طاہر بغدادی کی ’’الفرق بین الفِرق‘‘ حافظ ابو محمد ابن حزم کی ’’الفصل في الملل والنحل‘‘ شیخ محمد بن عبدالکریم شہرستانی کی ’’الملل والنحل‘‘ سب سے مشہور کتابیں ہیں۔ حضرات محدثین کی کتب ’’السنۃ‘‘ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ قدیم فرقوں کے علاوہ اب تو بہت سے جدید فرقے بن گئے ہیں اور علمِ کلام نے نئی نئی جہتیں اختیار کر لی ہیں۔ ان میں سے بعض کا تعلق قطعاً اسلامی فرقوں میں نہیں ہو سکتا۔ بعض وہ بھی ہیں جو حقیقتاً فرقہ نہیں محض علاقائی نسبت سے فرقہ کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔
علامہ صاحب رحمہ اللہ نے ’’فِرق‘‘ کو اپنی کتابوں کا موضوع بنایا اور موضوع کا حق ادا کیا۔ فرقوں میں ’’شیعہ‘‘ قدیم فرقہ شمار ہوتا ہے، جس کے متعلق مختلف عناوین پر
|