حضرت یزادانی صاحب نے کمالیہ خطاب کا وعدہ کیا، مگر کسی مجبوری کے تحت وہ کمالیہ نہ پہنچ سکے۔ جماعت نے یزدانی صاحب پر ہرجانے کا مقدمہ کر دیا۔ اسی اثنا میں لاہور لارنس روڈ پر واقع جمعیت اہلِ حدیث کے دفتر میں شوریٰ کا اجلاس منعقد ہوا۔ وہاں یزدانی رحمہ اللہ کا گارڈ قاری عبدالرحیم صاحب سے بدتمیزی پر اتر آیا، باہم توتکار ہونے لگی۔ شور اٹھا تو مولانا محمد اسحاق چیمہ اور دیگر ارکان شوریٰ فیصل آباد بھی وہاں پہنچ گئے۔ علامہ صاحب کو پتا چلا تو بھاگتے ہوئے آئے گارڈ کو ایک تھپڑ رسید کیا اور دھکا دیتے ہوئے اسے دفتر کی دیوار سے باہر کر دیا۔ خود علامہ صاحب نے کمالیہ کی جماعت سے معذرت کی۔ اس ناکارہ کو آج بھی وہ جملہ یاد آرہا ہے جو انھوں نے یزدانی مرحوم سے کہا: یزدانی صاحب! گارڈ رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں جو گولی لگنی ہے لگ کے رہے گی اور پھر بالآخر یوں ہی ہوا۔ کمالیہ پہنچنے پر علامہ صاحب نے قاری صاحب اور یزدانی صاحب کے مابین جو پرخاش تھی وہ دور کروائی۔ عصر کی نماز کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور مغرب کی نماز کے بعد وہاں محلہ امرتسریاں میں مختصر خطاب فرمایا۔ یوں وہاں سے ہم نے واپسی کی راہ لی۔
حضرت علامہ صاحب کو قرآن مجید سے غایت درجہ محبت تھی۔ سفر میں خود قرآن مجید پڑھتے یا قرآن سنتے تھے۔ ان ایام میں مصر کے قاری عنتر کو بھی بڑی شہرت ملی تھی۔ انہی کی تلاوت کی کیسٹ انھوں نے لگا دی۔ یہ ناکارہ واپسی پر ان کے ہم رکاب تھا۔ علامہ صاحب گاڑی بھی چلا رہے ہیں اور جھوم بھی رہے ہیں اور بار بار کہتے ہیں مولوی صاحب! ان کے پھیپھڑے ہیں یا مشکیں ہیں۔ اتنا لمبا سانس۔ سبحان اللہ، اللہ اکبر۔ یوں قرآن مجید سنتے یہ سفر تمام ہوا میں فیصل آباد گھر، جو کہ جامعہ مسجد محمدی اہلِ حدیث خالد آباد میں تھا، کے قریب اتر گیا اور علامہ صاحب
|