Maktaba Wahhabi

299 - 391
میں آئے تو علامہ صاحب نے خطاب فرمایا۔ سمندری جماعت کے نہایت متحرک اور فعال رکن جناب سعود صاحب نے خطاب کے بعد کچھ سوالات اٹھائے علامہ صاحب نے ان کے جوابات دئیے۔ یوں یہ مرحلہ بحسن و خوبی سرانجام پایا۔ جماعت بنا لینا آسان ہے بعض ایسی جماعتیں بھی ہیں جو تانگہ پارٹی کہلاتی ہیں۔ بعض ایسے بھی ہوتے کہ انھیں امارت و صدارت چاہیے ارکان کی چنداں ضرورت نہیں کوئی ناراض ہوتا ہے تو ہو جائے ہماری صدارت پکی ہے ہمیں کوئی ہلا نہیں سکتا۔ مگر حضرت علامہ مرحوم نے اکابر علمائے کرام کے مشورے سے جمعیت اہلِ حدیث کی بنیاد رکھی تو ہر ایک جماعت اور ایک ایک فرد سے رابطہ کیا اور انھیں ایک مضبوط نظم سے وابستہ کر دیا۔ آپ اوپر کے اسی ایک واقعہ ہی سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ عالمِ اسلام کا عظیم خطیب منبر پر خاموش بیٹھا ہے۔ غیر مشروط طور پر تمام مطالبات کو تسلیم کرتا ہے۔ صرف اس لیے کہ سب کو اکٹھا کرنا اور ایک ساتھ لے کر چلنا ہے۔ اگر یہ جذبہ صادقہ نہ ہوتا تو وہ انھیں نظر انداز کر سکتے تھے کہ میں بات سنانے آیا ہوں، جو سنتا ہے سن لے جو نہیں سننا چاہتا وہ نہ سنے اور چلا جائے، مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔ وہ اکثر و بیشتر احباب جماعت سے خود رابطہ میں رہتے، ان کے احوال دریافت کرتے، آخری ایام میں حضرت مولانا محمد اسحاق چیمہ مرحوم کو ان سے کچھ انقباض سا ہو گیا تھا۔ مگر یہ لطیفہ ہی ہے کہ علامہ صاحب جب بھی فون کرتے تو ان کے بارے میں ضرور پوچھتے کہ ان کی صحت کیسی ہے اور کبھی فرماتے ہمارے ’’اکبر مجرمیھا‘‘ کا کیا حال ہے؟ سمندری سے فارغ ہو کر ہمارا قافلہ کمالیہ کے لیے رواں دواں ہوا۔ وہاں قاری عبدالرحیم زاہد مرحوم منتظر تھے۔ عصر کے قریب وہاں پہنچے۔ کمالیہ کی جماعت کو شہیدِ اسلام حضرت مولانا حبیب الرحمان یزدانی سے شدید اختلاف تھا۔ ہوا یوں کہ
Flag Counter