عزم و جزم سے پورا لاہور شہر کراس کر کے لارنس روڈ پہنچے، وہاں روڈ پر اسٹیج لگا اور بھرپور جلسہ ہوا۔ حاضرین جلسہ سے خطیب اسلام حضرت مولانا قاری عبدالوکیل صدیقی رحمہ اللہ ، وکیل صحابہ حضرت قاری عبدالحفیظ صاحب زید مجدہ اور حضرت علامہ صاحب مرحوم نے خطاب فرمایا حاضرین کا جوش و جذبہ دیدنی تھا۔ اس سے ان کی پذیرائی اور ان کے خطاب کے اشتیاق کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
بیگم کوٹ کے جلسہ کا تسلسل بحمد اللہ آج تک قائم ہے، اللہ سبحانہ وتعالی اسے قائم رکھے اور اللہ تعالیٰ اسے علامہ مرحوم کی حسنات میں اضافے کا سبب بنائے رکھے۔ بیگم کوٹ کی طرح علامہ صاحب نے چنیوٹ میں بھی ختمِ نبوت کانفرنس کی طرح ڈالی، مگر افسوس کہ اس کا سلسلہ ان کے مشن کے وارثین قائم نہ رکھ سکے۔ اس کا آغاز بھی حضرت علامہ مرحوم نے بڑے جذبے اور ولولے سے کیا تھا اور ان کی زندگی میں یہ دوبار ہی منعقد ہو سکی۔ ایک کانفرنس میں علامہ صاحب تقریر کر رہے تھے اور قادیانیت کے بخیے ادھیڑ رہے تھے کہ اسی اثنا میں بارش برسنے لگی تو پنڈال سے سامعین اٹھنے لگے۔ علامہ صاحب نے فرمایا: بیٹھ جاؤ، مجھے وہ رفقا اور نوجوان نہیں چاہئیں جو بارش کے قطروں سے بھاگنے لگیں مجھے وہ ساتھی چاہییں جو خون کی ندیاں تیر کے منزلِ مقصود حاصل کرنے کا عزم رکھتے ہوں۔ اٹھنے والے سامعین وہیں بیٹھ گئے ، مجال ہے کہ کوئی کھڑا رہا ہو۔ چند لمحے بعد انھوں نے یہ کہتے ہوئے کانفرنس کا اختتام کیا کہ میں زیادہ دیر تک آپ کو آزمایش میں ڈالنا نہیں چاہتا۔
وآخر دعوانا أن الحمد للّٰه رب العالمین۔
یہ ناکارہ ۱۹۷۵ء سے تقریباً ۱۹۹۲ء تک خالد آباد کی محمدی مسجد اہلِ حدیث میں خدمات سرانجام دیتا رہا۔ اس دوران میں علامہ صاحب دو تین مرتبہ محمدی
|