ٹھہر ٹھہر کے بات کرتے ہیں اور وہ روانی نظر نہیں آتی جو آپ میں ہے۔ علامہ صاحب نے فرمایا: ’’آپ کا سوال درست ہے دراصل یونیورسٹی میں باہر سے آنے والے طلبا کو ان کے ہم وطنوں کے ساتھ رہائش کے لیے کمرہ الاٹ ہوتا تھا، مگر میں نے اپنے ہم وطنوں کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا اور بڑے اصرار سے مصری طلبا کے کمرے میں رہایش اختیار کی، انہی کے ساتھ شب و روز گزرتے تھے، بلکہ اپنے ہم وطنوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا کم ہی ہوتا تھا اور اس کا مقصد وحید بھی یہی تھا کہ عربی ادب سے کامل آگاہی حاصل ہو۔‘‘ یونیورسٹی میں تعلیم اور اسی ترکیب کا نتیجہ تھا کہ وہ بلا تکان عربی میں گفتگو کرتے اور سامعین کا دل موہ لیتے۔
علامہ صاحب کے سانحہ شہادت سے تقریباً ایک سال قبل حج کے لیے مخدومی مولانا محمد اسحاق چیمہ رحمہ اللہ ، حضرت علامہ مرحوم کے ہمسفر تھے۔ واپسی پر ایک بار مولانا چیمہ مرحوم نے فرمایا: معلوم یوں ہوتا ہے کہ علامہ صاحب بس ہمارے مہمان ہیں۔ میں نے عرض کی: جناب! آپ یہ کیا فرما رہے ہیں۔ فرمانے لگے: ’’ہر کمالے را زوالے‘‘ جو کمال، جو عزت و احترام، جو پذیرائی میں سعودیہ میں ان کی دیکھ آیا ہوں اس سے آگے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں جالیات اور اخبارات کے منتظمین، ٹی وی اور میڈیا کی مختلف تنظیمیں ان کا پیچھا کرتیں۔ سرکاری عملہ اور اربابِ حکومت سے ان کی ملاقاتیں، علامہ کو تو آرام کا بھی کم ہی موقعہ ملتا تھا۔ چیمہ صاحب نہایت زیرک اور قیافہ شناش تھے اور یوں جو کہا جاتا ہے کہ ’’قلندر ہر چہ گو ہے دیدہ گوید‘‘ چیمہ صاحب کی بات سچی ثابت ہوئی۔ اس کے سال، سوا سال بعد ہی علامہ صاحب چل بسے اور چلے بھی اس ادا سے کہ پوری دنیا کو رُلا گئے۔
ایک مرتبہ اس ناکارہ کو ان کے ہاں شب باشی کا موقعہ ملا۔ سردیوں کے ایام
|