بٹھا کر پانچ مختلف مضامین لکھواتے تھے اور کسی کا قلم رکتا نہیں تھا۔[1]
علامہ مرحوم کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بے پناہ حافظہ سے نوازا تھا۔ نو (۹) سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اور تقریباً عمر بھر تراویح میں سنایا۔ ایک مرتبہ رمضان المبارک کے ایام میں مجھے ان کے ہاں حاضری کا موقعہ ملا۔ دس بجے سے لے کر افطار صوم تک مسلسل مصروف رہے۔ افطاری کے بعد اجازت لے کر آنے لگا تو فرمانے لگے آج یہاں قیام کرو اور نمازِ تراویح میرے ساتھ پڑھو، میں نے ان سے معذرت کی کہ نہیں مجھے ضرور جانا ہے۔ اسی اثنا میں، میں نے عرض کی دن بھر آپ قرآن مجید کی منزل دہرا نہیں سکے، ابھی میں یہ جملہ مکمل نہ کر پایا تھا کہ فرمانے لگے: مولانا صاحب! اللہتعالیٰ کے فضل و کرم سے بچپن میں یاد کیا اور خوب یاد کیا تھا اس کے بعد یاد داشت کے طور پر دہرانے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
قرآن مجید کے علاوہ عربی، فارسی اور اردو کے ہزاروں اشعار نوک زبان تھے اور تقریر کے دوران برجستہ انھیں پڑھتے۔ مناقب صحابہ کرام کا موضوع ہوتا تو کتاب و سنت کے ساتھ ساتھ روافض کی کتابوں سے حوالوں کے انبار لگا دیتے۔ وہ بلاشبہ اخطب الخطباء تھے اور ان کی خطابت کا اعتراف اپنے کیا بیگانے بھی کرتے تھے۔ اردو ہی نہیں عربی میں بھی ان کی خطابت کا سکہ چلتا تھا اور عرب ان کی خطابت پر فریفتہ ہوتے اور سر دھنتے تھے۔ اس ناکارہ نے ایک بار ان سے دریافت کیا کہ جناب! مدینہ یونیورسٹی میں آپ نے پڑھا اور بہت سے دیگر پاکستانی فضلا نے وہاں سے فیض پایا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ جب عربی میں گفتگو کرتے ہیں تو بلاتامل، بلا خوف و تعطل تسلسل سے بڑے دھڑلے سے کرتے ہیں۔ مگر یہ کیفیت وہاں کے اکثر فضلا کی نہیں ہوتی وہ
|