تھے۔ وہیں مجھے اسماعیلیہ کے ابتدائی قاعدے اور ان کی دیگر کتب سے آگاہی ہوئی۔
یہی وجہ ہے کہ ان کی کتب میں خطابت کا انداز پایا جاتا ہے اور ان کے الفاظ میں علامہ مرحوم بولتے محسوس ہوتے ہیں۔ یہی اسلوب ان کے دلی دوست حضرت مولانا قاضی محمد اسلم سیف (نور اللہ مرقدہ) کا تھا کہ وہ بھی عموماً مضمون لکھواتے تھے، لکھتے نہیں تھے، بلکہ محترم قاری حفیظ الرحمان صاحب اور بعض دیگر حضرات نے بتلایا کہ جب کبھی وہ جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن کے تعاون کے لیے یا کسی دعوتی و تبلیغی پروگرام سے رات گئے واپس آتے تو جانے سے پہلے فرما دیتے کہ میں اس وقت تک ان شاء اللہ پہنچ جاؤں گا، ہوشیار رہنا یہ اور یہ مضمون لکھنا یا مکمل کرنا ہے۔ چنانچہ وقت موعود پر جب واپس آتے تو انھیں بلا لیتے اور مضمون لکھوانا شروع کر دیتے۔ عجیب بات ہے کہ تھکے ماندے ہوتے ہوئے رات کا اکثر حصہ بیت جاتا۔ مضمون لکھواتے ہوئے انھیں نیند آجاتی، خراٹے لینے لگتے، وہ اٹھانے کی یا کھانسی کر کے بیدار کرنے کی جسارت نہ کرتے، خود ہی جب بیدار ہوتے تو بلاتامل اور بلا استفسار کہ کیا لکھا ہے، وہیں سے آگے لکھوانا شروع کر دیتے، جہاں کوئی جملہ ختم ہوا تھا۔ اللہ اللہ یہ کیسے استحضار اور کس قدر بیدار مغز انسان تھے۔ قاضی صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ یہ ماہنامے اور ہفت روزے ناکافی ہیں۔ کاش! جماعت کوئی روزنامہ نکالتی تو اس میں ہمارا شوق بھی پورا ہو جاتا۔ اسی طرح حضرت میاں محمد جمیل صاحب حفظہ اللہ رئیس ابو ہریرہ اکیڈمی بھی اکثر و بیشتر مضامین لکھواتے ہیں۔شیخ العرب والعجم سید بدیع الدین الراشدی پیر آف جھنڈا بھی آخر عمر میں یہی اسلوب اختیار کرتے تھے۔ اس ناکارہ نے ان کو معروف تفسیر ’’بدیع التفاسیر‘‘ لکھواتے ہوئے دیکھا۔ یادش بخیر! حضرت سید اسماعیل شہید کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں پانچ آدمیوں کو سامنے
|