میں بھی مدد ملے گی۔ میں یہی مشورہ سن کے حضرت علامہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کی کہ آپ اس کتاب کا مقدمہ لکھ دیں۔ انھوں نے جیسا کہ ان کا انداز تھا، بڑے زور سے ’’استغفراللہ‘‘ پڑھا اور میری التماس کو ٹھکرا دیا۔ میں نے عرض کی: جناب! یہ صرف میری بات نہیں مجھے حضرت محدث بھوجیانی نے فرمایا ہے کہ آپ سے مقدمہ لکھواؤں۔ میری یہ بات سن کر فرمانے لگے: کیا کہا؟ تو میں نے ساری داستان انھیں سنا دی۔ وہ چار زانوں بیٹھے تھے رانوں پر ہاتھ مارتے ہوئے بڑے تپاک سے کہا ؎
حفیظ کب مانتے تھے لوگ بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
فرمانے لگے: انھوں نے کہا ہے تو پھر ضرور لکھوں گا۔ تم اس بارے میں ضروری مواد مہیا کر دو۔ چنانچہ چند روز بعد مقدمے کے متعلق مواد لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور فرمایا: میں یہ دیکھ لوں دو روز بعد آجائیں، ان شاء اللہ مقدمہ لکھیں گے۔ چنانچہ حسبِ فرمان میں تیسرے روز ان کے درِ دولت پر حاضر ہوا۔ ظہر کی نماز کے بعد بیٹھ گئے دو تین منٹ سر کو دباتے رہے، آنکھیں ملتے رہے، گردن کے اعصاب کو بھی دباتے رہے۔ پھر یکدم فرمایا: مولوی صاحب! لکھو۔ علامہ صاحب لکھواتے گئے، یہ ناکارہ لکھتا گیا۔ ایک ہی مجلس میں چھے صفحات پر مشتمل یہ مقدمہ انھوں نے لکھوایا اور راقم نے اس کا عنوان یوں دیا:
’’مقدمہ الأستاذ العلامۃ إحسان إلٰھي ظہیر
أمین العام جمیعت أہل حدیث باکستان‘‘
لیکن وائے افسوس کہ یہ مقدمہ بعد میں مسند کی طباعت میں علامہ صاحب کی شراکت ختم ہو جانے کی وجہ سے شائع نہ ہو سکا۔ کتاب کی طباعت میں یہ اشتراک
|