کیوں ختم ہوا، اس کی کیا وجوہ تھیں، اس کا بھی ایک پسِ منظر تھا۔
ہوا یوں کہ علامہ صاحب نے ادارۃ العلوم الاثریہ کی مطبوعہ کتاب ’’العلل المتناھیۃ في الأحادیث الواھیۃ‘‘ لابن الجوزی، مصر سے چھپوا کر عالم عرب میں فروخت کی۔ اس کی خبر کسی نہ کسی صورت حضرت مولانا محمد اسحاق چیمہ مرحوم کو ہوئی تو وہ بڑے کبیدہ خاطر ہوئے کہ ہمارے رفیقِ سفر ہمارے ہی ادارہ کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ حالانکہ اس میں ادارہ کا چنداں نقصان نہ تھا، کیوں کہ مقصد خدمتِ علم ہے، جلبِ منفعت نہیں۔ انھوں نے اس کا شکوہ شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ صاحب سرپرست جمعیت اہلِ حدیث سے کیا، انھوں نے اس بارے میں علامہ صاحب سے بات کی تو علامہ صاحب نے اسی حوالے سے ادارے کو رائلٹی کے طور پر دس ہزار روپے ادا کیے۔ مگر چیمہ صاحب کے دل میں گرہ پڑ گئی کہ معلوم نہیں مسند ابو یعلیٰ کا معاملہ کیا ہو گا۔ ہم تو اس کی نشر و اشاعت سے براہِ راست بے خبر ہوں گے۔ بس یہی شبہ مسند ابو یعلی کی طباعت میں علامہ صاحب کی شراکت ختم ہونے کا باعث بن گیا۔ علامہ صاحب کیا ’’العلل المتناھیہ‘‘ کو عراق کے ایک ’’محقق‘‘ نے بھی شائع کیا اور اس کی تحقیق و مراجعت کو اپنے نام سے معنون کیا۔ جس کی تفصیل بڑی دلچسپ ہے، مگر وہ یہاں غیر ضروری ہے ادارہ کی عربی اور اردو مطبوعات بلا اجازت بیرونِ ملک شائع ہو رہی ہیں اور دوسرے ممالک کی مطبوعات یہاں پاکستان میں طبع ہو رہی ہیں۔ ناشر کا یہ اگرچہ ’’شر‘‘ ہے تاہم قارئین کرام ان سے استفادہ کر رہے ہیں۔
علامہ صاحب کے مقدمہ لکھنے کی یہ ساری داستان میں نے ایک مجلس میں جب اخی و حبی شیخ عارف جاوید محمدی حفظہ اللہ سے ذکر کی تو انھوں نے اس مقدمہ کی فوٹو کاپی کا تقاضا کیا تو اس کا فوٹو میں نے انھیں دے دیا۔ نہایت ضروری سمجھتا ہوں کہ یہاں
|