استادِ گرامی حضرت مولانا محمد عبداللہ مرحوم جب آخری بار ۱۹۸۳ء میں عمرے کے لیے تشریف لے گئے تو وہ اس مسودے کا عکس اپنے ہمراہ لے گئے، تاکہ اس کی طباعت کی کوئی سبیل نکل آئے۔ چنانچہ حافظ فتحی مرحوم کی وساطت سے ایک ادارے سے اس کی اشاعت کی بات ہوئی، مگر مولانا مرحوم کی اچانک وفات سے یہ معاملہ بھی دھرے کا دھرا رہ گیا۔
مولانا محمد اسحاق چیمہ پر مولانا محمد عبداللہ کی وفات کا بڑا گہرا اثر ہوا، ادارے کے معاملات کو چلانے اور اس کے اہداف کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی تمام ذمے داریاں ان پر آن پڑیں۔ اسی پریشانی کے عالم میں انھوں نے مسند ابی یعلی کی طباعت کا ذکر حضرت علامہ مرحوم سے کیا تو انھوں نے اپنے ادارہ ترجمان السنۃ کے اشتراک سے اس کی طباعت سے اتفاق کیا کتاب کی کمپوزنگ شروع تھی، یہ ناکارہ چاہتا تھا کہ اس کا مقدمہ سندی و مشفقی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی شارح السنن النسائی لکھیں۔ دو تین بار اس بارے میں ان سے عرض کیا تو انھوں نے اپنی صحت کی خرابی کے باعث مقدمہ لکھنے سے انکار کر دیا۔
ایک روز اسی حوالے سے ان سے عرض کی کہ آپ اگر یہ نہیں لکھ پاتے تو فرمائیں یہ کن سے لکھوایا جائے۔ انھوں نے بلا تأمل فرمایا: حافظ احسان الٰہی سے کہو کہ وہ اس کا مقدمہ لکھیں۔ بعض معاملات کی بنا پر حضرت محدث بھوجیانی کو علامہ صاحب سے شکایت تھی، جس کی تفصیل یہاں غیر ضروری ہے۔ یہ ناکارہ ان کی زبان سے یہ بات سن کر بڑا متعجب ہوا اور ششدر ہو کے رہ گیا۔ عرض کیا گیا آپ یہ بات مزاح کے طور پر تو نہیں کہہ رہے؟ انھوں نے فرمایا: بالکل نہیں، سنجیدگی سے کہتا ہوں، وہ بالکل اس کے اہل ہیں۔ ان کے مقدمہ سے عرب دنیا میں کتاب کی نکاسی
|