Maktaba Wahhabi

275 - 391
کوئی مضمون تیار ہے تو مجھے دیں، ترجمان الحدیث کے صفحات خالی ہیں۔ ادھر مہینہ بھی اختتام کو پہنچنے والا ہے۔ کوئی تحریر دفتر میں نہیں، خطرہ ہے کہ کہیں اس ماہ کا شمارہ شائع ہونے میں تاخیر نہ ہو جائے۔ میں نے عرض کی کہ مضمون تو ہے مگر مکمل نہیں، اس کی نظر ثانی بھی ابھی نہیں ہو سکی اور اس کا کوئی عنوان بھی نہیں ہے۔ یوں میرا مقصد تو ٹال مٹول تھا مگر انھوں نے فرمایا: لاؤ دکھلاؤ، کیا لکھا ہے؟ چنانچہ میں نے یہ مضمون لا کے ان کی خدمت میں پیش کیا۔ اس کے ایک دو صفحات انھوں نے ملاحظہ فرمائے اور پھر ڈرائیور کو دیتے ہوئے فرمایا: اسے گاڑی میں رکھ دو۔ میں نے عرض کی کہ اس کا تو کوئی ابھی عنوان تجویز نہیں کیا، فرمانے لگے: میں خود تجویز کر لوں گا۔ چنانچہ یوں یہ تبصرہ ’’احسن الکلام پر ایک نظر‘‘ کے عنوان سے انھوں نے شائع کیا اور اس کی پہلی قسط ۱۹۷۳ء میں شائع ہوئی۔ یہی مضمون ان کے ساتھ قربتوں کا باعث بن گیا۔ جب ملتے بڑی محبت اور اپنائیت کے ساتھ ملتے۔ یہاں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ ۱۹۷۵ء تک یہ مضمون شائع ہوتا رہا۔ میری یہ عموماً کوشش ہوتی تھی کہ چار پانچ ماہ بعد حضرت الاستاذ محدث گوندلوی کی زیارت کے لیے درِ دولت پر جاتا۔ بالخصوص شعبان میں اور عرض کرتا کہ حضرت رمضان المبارک کی دعاؤں میں اس ناکارہ کو نہ بھولیں اور یہ بھی دعا کریں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ رمضان کی سعادتوں کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مضمون کی بندش سے تقریباً تین ماہ قبل حضرت گوندلوی رحمہ اللہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا تو انھوں نے مضمون کی تحسین کرتے ہوئے فرمایا ضروری مباحث آگئے ہیں آیندہ حدیث: ’’من کان لہ إمام فقرائۃ الإمام لہ قرائۃ‘‘ پر لکھیں، میں نے عرض کی کہ اس حدیث پر اگر لکھا جائے تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مضمون شائع ہونا بند ہو جائے گا۔ ابھی اور بھی مباحث
Flag Counter