Maktaba Wahhabi

274 - 391
کے نام سے اس کا جواب دیا ہے۔ تاہم اس کے تفصیلی جواب کی ضرورت ہے۔ مولانا مدن پوری نے اس کا جواب لکھنے پر اصرار فرمایا تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی توفیق سے اس کا جواب، جو اولاً احسن الکلام پر تبصرہ کی صورت میں تھا، لکھنے کا آغاز کر دیا۔ یہاں یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ ۱۹۶۸ء میں جب یہ احقر الجامعہ الاسلامیہ گوجرانوالہ میں زیرِ تعلیم تھا، تب وہاں طلبا کا اسبوعی اجلاس ہوتا تھا اور طلبا حسبِ منشا مختلف عناوین پر تقریر کرتے تھے۔ ایک بار یوں ہوا کہ استاذ الاساتذہ حضرت مولانا ابو البرکات احمد رحمہ اللہ کی زیرِ صدارت یہ اجلاس ہوا، احقر نے فاتحہ خلف الامام کے موضوع پر گفتگو کی، بعد میں حضرت الشیخ رحمہ اللہ نے تقاریر پر تبصرہ کیا اور مجھے مخاطب ہو کے فرمایا کہ اس موضوع پر تقریر کرنی تھی تو تمھیں احسن الکلام دیکھنی چاہیے تھی۔ میں نے یہ نام تو سن رکھا تھا، مگر کتاب سے بالکل ناواقف تھا۔ چنانچہ ایک دو روز بعد میں نے حضرت شیخ صاحب رحمہ اللہ سے عرض کی کہ ’’احسن الکلام‘‘ جامعہ کی لائبریری سے مل سکتی ہے؟ تو انھوں نے لائبریری سے ’’احسن الکلام‘‘ مجھے عنایت فرمائی۔ چنانچہ اس سال کے دوران میں وقتاً فوقتاً ’’احسن الکلام‘‘ کا مطالعہ کرتا رہا اور بعض مقامات پر کچھ نوٹس بھی لکھتا رہا۔ جو شاید آج بھی تلاش سے کہیں مل جائیں، لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد باقاعدہ اس کے حوالے سے لکھنا پڑا تو اس کا سبب بنے حضرت مولانا مدن پوری مرحوم۔ چنانچہ ’’احسن الکلام‘‘ پر تبصرہ کے طور پر تقریباً پچیس تیس صفحات لکھے ہوں گے کہ حضرت علامہ مرحوم فیصل آباد شیخ الحدیث مولانا محمد اسحاق چیمہ رئیس ادارۃ العلوم الاثریہ کی دکان پر تشریف لائے۔ مولانا چیمہ کی دکان بیرون منٹگمری بازار حبیب اور پھر مسلم ٹمبر سٹور کے نام سے تھی۔ مولانا چیمہ نے فون کر کے مجھے بھی وہیں بلا لیا۔ میں حاضرِ خدمت ہوا، چائے کا دور چلا، اسی اثنا میں حضرت علامہ صاحب نے فرمایا کہ
Flag Counter