یہ ہے ساری داستان جس کا ذکر علامہ احسان الٰہی ظہیر نے حضرت حافظ صاحب کی مجلس میں کیا تھا۔ اس مجلس میں بس انھیں دیکھا اور کچھ باتیں سنیں۔ مگر پہلی بار انھیں سننے کا موقع لاہور میں ملا۔ فروری ۱۹۶۸ء میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ فوت ہوئے، چند ماہ بعد ان کی یاد و خدمات کے حوالے سے لاہور میں ایک پروگرام ہوا، جس میں حضرت علامہ مرحوم نے بھی خطاب فرمایا اور بڑے ہی جوش و جذبہ اور حزن و ملال کے ملے جلے جذبات سے حضرت سلفی مرحوم کی خدمات کا تذکرہ کیا۔
۱۹۷۰ء کے بعد مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے عاملہ و شوریٰ کے اجلاسوں میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد اسحاق چیمہ رحمہ اللہ کی معیت میں شرکت کے لیے جب بھی موقع میسر آیا تو وہاں حضرت علامہ مرحوم سے ملاقات ہوتی رہی جو بس علیک سلیک تک رہی۔ غالباً ۱۹۷۲ء میں ضلع مظفر گڑھ کے کسی قصبے میں فاتحہ خلف الامام کے عنوان پر اہلِ حدیث اور دیوبندی علما کے مابین مناظرہ ہوا۔ اہلِ حدیث کے مناظر سلطان المناظرین حضرت مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی اور معاون شیخ الحدیث استاذ العلماء مولانا سلطان محمود محدث جلالپوری، مناظرِ اسلام مولانا محمد رفیق مدن پوری اور حضرت مولانا محمد رفیق اثری جلالپوری تھے۔ اس مناظرے کی کچھ روداد حضرت مولانا اثری صاحب حفظہ اللہ نے ’’مولانا سلطان محمود محدث جلالپوری رحمہ اللہ ‘‘ کے (ص: ۲۴۸، ۲۴۹) پر ذکر کی ہے۔ اسی مناظرے سے فارغ ہو کر حضرت مولانا مدن پوری واپس اپنے گھر فیصل آباد آئے تو ہمارے ہاں ادارۃ العلوم الاثریہ میں بھی تشریف لائے۔ اس مناظرے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا: کیا ’’احسن الکلام‘‘ مؤلفہ شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز صفدر صاحب کا کوئی جواب نہیں؟ اس ناکارہ نے عرض کی: جواب ہے، کیوں جواب نہیں۔ حضرت حافظ صاحب محدث گوندلوی نے ’’خیر الکلام‘‘
|