انھوں نے فرمایا: تم نے ان کو دیکھا، ان کے والد مرحوم کو نہیں دیکھا۔ مگر یہ سختی درشتی کا نتیجہ نہیں، بلکہ پابندیِ شریعت کا دوسرا نام ہے اور یہ اصول پسندی ہے، سختی نہیں۔
یہ تھی میری ان سے باقاعدہ پہلی ملاقات۔ اس کے بعد گاہے بگاہے حاضری کی سعادت حاصل ہوتی رہی۔ ان کی اسی اصول پسندی کا نتیجہ تھا کہ جو کام بھی کرنا ہے، بروقت اور طے شدہ پروگرام کے مطابق کرنا ہے۔ کسی کج کلاہ کے انتظار کا تصور ان کے ہاں بالکل نہ تھا۔ خوشی غمی کے موقع پر عموماً تاخیر ہو جایا کرتی ہے، لیکن ان کے ہاں ایسے موقع پر بھی اس کا تصور نہ تھا۔ خود پابندیِ وقت کا لحاظ کرتے اور دوسروں کو اس کی تاکید فرماتے۔ اور سچی بات یہ ہے کہ اسلام میں پابندیِ وقت، وقت کی قدر و منزلت کا جس قدر احساس اور پاس و لحاظ ہے، کسی اور مذہب میں نہیں۔ مگر افسوس! آج اس میں سب سے زیادہ غفلت کا شکار مسلمان ہے۔ إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔
حضرت مولانا مرحوم کی زیارت کے لیے عموماً عصر کی نماز کے بعد ان کی قیام گاہ پر حاضر ہوتا اور مغرب کی نماز کے قریب اجازت لے کر واپس ادارہ میں پہنچ جاتا۔ اٹھتے ہوئے فرماتے: ’’جوان فیر کدوں آئیں گا؟‘‘ عرض کرتا کہ جلد حاضری کی کوشش کروں گا۔ فرماتے: ’’جوان آ جایا کر، واواہ دل لگیا رہندا اے۔‘‘ آخری ایام میں تو آخرت کی فکر بہت بڑھ گئی تھی۔ اکثر و بیشتر آبدیدہ ہو جاتے اور فرماتے: ’’پلے کجھ نہیں، ساڈا کی بنے گا؟‘‘ میں عرض کرتا: حضرت! آپ کی تو عمر ماشاء اللہ دین کی خدمت میں گزری ہے، جس مالک نے اپنی مہربانی سے یہ توفیق عطا فرمائی ہے، اس سے بہتری ہی کی امید ہے۔ ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے فرماتے: معاملہ بہت مشکل اور کٹھن ہے، اللہ ہی خیر فرمائے۔ قرآن مجید سے انھیں خاص لگاؤ تھا۔ سالانہ درسِ بخاری شریف کے پروگرام کے ساتھ سالانہ محفلِ قراء ت کا اہتمام کرتے اور آخر
|