بلایا گیا ہے۔ ایک شادی کے موقع پر ایک مہربان نے طلبا کو دعوت دی، مگر ہوا یوں کہ اہلِ خانہ نے پیغام بھجوایا کہ مہمان فارغ نہیں ہوئے، طلبا کھانے کے لیے نہ آئیں۔ مہمان فارغ ہو جائیں گے تو بلوا لیں گے۔ حضرت مولانا مرحوم کو ان کی یہ روش نہایت ناگوار گزری اور حکم دیا کہ میری جانب سے جلد طلبا کو کھانا کھلا دیا جائے۔ میرے مدرسہ کے دینی مہمان، کسی کا پس خوردہ سمیٹنے کے لیے نہیں۔ عقیدت و محبت سے نکاح پڑھانے کے لیے بعض حضرات آپ کو بلا لیتے۔ نکاح میں اگر بینڈ باجا، تصویر کشی اور دیگر خرافات و رسم و رواج کا پتا چل جاتا تو بھری مجلس سے واپس آجاتے۔ شریعتِ مطہرہ کی اسی پاسداری کا نتیجہ تھا کہ عزیز و اعزا کے ہاں ایسی تقریبات کے موقع پر جانے سے گریز کرتے، محض اس لیے کہ:
وہ اپنی خو نہ بھولیں گے ہم اپنی خو کیوں بدلیں
اس ناکارہ کو ان سے باقاعدہ نیاز پہلی بار استاذ العلماء حضرت مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ۔نوّر اللّٰه مرقدہ۔ کے ہمراہ حاصل ہوا۔ حضرت مولانا مرحوم ادارہ میں تشریف لائے، رات میرے ہاں قیام فرمایا۔ عشا کی نماز ان کے ہمراہ کلیہ دار القرآن میں ادا کی۔ نماز کے بعد مولانا ویرووالوی سے ملاقات ہوئی۔ دونوں حضرات دیر تک محبت آمیز باتیں کرتے رہے۔ چائے کا دور چلا، ہندوستان کے واقعات اور اسلام کی خدمات کا تذکرہ ہوا۔ دورانِ گفتگو انھوں نے میرے بارے میں دریافت فرمایا تو مولانا بھوجیانی نے میرا تعارف کرایا۔ مولانا مرحوم نے فرمایا: ’’جوان‘‘ یہ ان کا کسی کو تخاطب کرنے کا تکیہ کلام اور لطف و محبت کے اظہار کا ذریعہ تھا: ’’کدی آجایا کر‘‘ میں نے ان سے اس محبت پر شکریہ ادا کیا۔ البتہ وہاں سے اٹھنے کے بعد حضرت بھوجیانی سے عرض کی کہ مولانا کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ بڑے سخت مزاج ہیں۔
|