مدرسہ میں جمع کروا دی۔
ان کی اس محتاط زندگی اور ورع و پرہیز گاری ہی نے بہت سوں کو آپ کا گرویدہ بنا لیا تھا اور وہ حضرات کلیہ دار القرآن کے مالی معاملات میں آپ کے اشارۂ ابرو کے منتظر رہتے۔ کلیہ کے مالی معاملات میں کبھی ان کو پریشان نہ دیکھا گیا۔ ہر مرحلہ پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فضل و کرم شاملِ حال رہتا۔ تقریباً اٹھارہ بیس سال پہلے جب کلیہ کی توسیع کے لیے ملحقہ مکان تقریباً نو لاکھ کی خطیر رقم سے خریدنے کا عزمِ مصمم کیا تو بعض رفقا نے بددلی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتنی رقم کہاں سے آئے گی؟ مگر انھوں نے بڑے وقار اور اعتماد سے فرمایا: گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ میرے پاس ایک ’’سامی‘‘ ہے۔ میں نے اپنی اپیل اس کے دربار میں پیش کر دی ہے۔ ساتھی حیران و پشیمان تھے کہ نہ سفیر، نہ کسی کے در پر حاضری، رقم آخر آئے گی کہاں سے؟ مگر سب نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مقررہ تاریخ سے پہلے مطلوبہ رقم جمع ہو گئی اور ادا کر دی گئی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان بلاشک و ریب بجا ہے کہ ﴿وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ﴾ [الطلاق: ۳] نیز یہ بھی کہ ((أنا عند ظن عبدي بي ))۔
حضرت مولانا مرحوم کے اوصافِ حمیدہ میں یہ وصف بھی بھولنے والا نہیں کہ انھوں نے ہمیشہ شریعتِ مطہرہ کی پاسداری کی۔ علم اور علمی وقار کو ہمیشہ قائم رکھا، حتی کہ اپنے کلیہ کے طلبا کی عزت کو بھی کبھی مجروح نہ ہونے دیا۔ اہلِ ثروت کے ہاں عموماً یہ طریقہ ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر بچا ہوا کھانا کسی مدرسہ میں بھیج دیتے ہیں، مگر مولانا مرحوم ایسے کھانے کو بھی طلبا کی عزتِ نفس کے منافی سمجھ کر واپس کر دیا کرتے۔ ایسے ہی موقع پر اگر کوئی طلبا کو مدعو کرتا تو یہ احساس بھی رکھتے کہ طلبا کو کب اور کیسے
|